کوشش کیجئے۔
تمام خوبیاں اس علیم و خبرکے لئے ہیں جس نے منبع و عموم فنون صاحب شریعت مطہرہ دیکر ایک امین و متین کو رسدول بناکر بھیجا اور ان کام نام محمدرسولاللہﷺ رکھا۔انہیں پاکیزہ کردار اور علو ہمت اہلبیت و اصحاب کی لے لوث خدمت گزار جماعت عطاء فرمائی۔بحمد اللہ ایک عظیم طبی کتاب الحاوی الکبیر فی الطب۔کا نوواں حصہ آپ کے ہاتھوںمیں ہے۔میری معلومات کے مطابق یا دستیاب مواد کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے انہیں حصص کا اردو مین ترجمہ موجود ہے۔بہت سے لوگ اسے مکمل کتاب سمجھتے ہیں۔حالانکہ یہ کتاب ادھوری ہے۔تقریبا نصف حصہ ابھی تک عربی زبان میں ہے۔یہ بھی ویب سائٹ پر اپ لورڈ ہے۔اردودان طبقہ استفادہ سے محروم ہے۔ممکن ہے مکمل کتاب ترجمہ ہوچکی ہو۔لیکن ہمیں
دستیاب نہ ہوسکی۔
آج صبح جب میں اردو ترجمہ کے تمام حصص کی ریمپوزنگ اور ڈزائننگ کربیٹھا تو خیال ہوا کہ عربی متن کی طرف رجوع کروں ۔تو ایک سفر دیگر تھا اس سفر کے بعد ۔میرے ذۃن میں دیگر کتب کا خاکہ تھا کہ ان پت کام کیا جائے جیسے رازی صاحب کی ہی کتاب ۔الفاخر فی الطب کا جزو دوم۔۔اس کا مسودہ بھی تیا ر کرلیا تھا۔ ابھی کشمکش میں ہونکہ کس کتاب پر پہلے کام کیا جائے۔الحاوی کو مکمل کروں یا پھر الفاخر کیدوسری جلد پر کام کروں ۔اس کے علاوہ نایاب کتب میں بڑی تعداد موجود ہے جو کسی صاحب نظر کی توجہ کی منتظر ہے۔
آج جمعۃ المبارک۔۔۔۔۔5جولائی2024 ہے۔باہر ہلکی ہلکی بارش پھوار کی طرح موسم کو خوشگوار کئے ہوئے ہے۔گوکہ کئی ایک ملاقاتیں بھی ہیں ۔جمعہ کے لئے بھی جانا ہے۔رات بھر کام کرنے کی وجہ سے کافی تھکاوٹ بھی ہے۔لیکن علمی چس(نشہ کی حد تک) دامنگیر ہے۔لہذا پھر لیپ ٹاپ کھولا کام شروع کردیا ہے۔
زندگی کی ناپئیداری کسی پل چین نہیں دے رہی۔میرے بیٹے سعد یونس کو اگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں بلاواآسکتا ہے تو میں تو پھر بھی 52 سال کا ہوچکا ہوں ۔اب انتظار کس بات کا؟۔جو ہوجائے بسا غنیمت ہے۔ممکن ہے آج کی بے آرامی میرے لئے صدقہ جاریہ میں تبدیل ہوجائے۔۔کسی بھی کتاب کی فروخت وقتی طورپر اہمیت رکھتی ہے۔لیکن اصل یہ ہے وہ کتاب کتنی لمبی زندگی پاتی ہے اور آنے والے وقت میں کس قدر لوگ استفادہ کرتے ہیں.زکریا رازی کو اس وقت دنیا سے گئے ہوئے 525 سال بیت چکے ہیں ۔انہوں نے اس کتاب کو کتنی صعوبتیں جھل کر ترتیب دیا۔لیکن اس کتاب نے خلق کثیر کو
فائدہ پہنچایا امید ہے کہ ان کی بے آرامی راحت میں تبدیل ہوچکی ہوگی۔ممکن ہے یہی کیفیت میری بھی ہو۔
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلزپاکستان کے پلیٹ فارم سے ہونے والی کاوشیں بھی زمانہ یاد رکھے گا۔وہ شکر گزار ہونگے کہ انہیں اس ادارہ کے توسط سے انمول طبی خزانہ ملا۔ان کی علمی تشنگی کا راستہ ملا۔یہ کوششیں کب تک جاری رہتی ہیں معلوم نہیں لیکن جب تک کوشش کی جاسکتی ہے ۔کرلینی چاہئے۔
برصغیر کی تاریخ ہے کہ زندگی میں کسی کی شخصیت تسلیم نہیں کی جاتی ۔مرنے کے بعد مجاوروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔یقین نہ آئے تو بڑی بڑی گدیاں اور جانشینیاں دیکھلیں۔جن لوگوں نے بھوک پیاس مین مشقت کی تھی ان کی اولادیں ان کا صلہ وصول کرنے میں مصروف ہیں۔یہی حال علمی سرگرمیوں کا بھی ہے۔کہ لکھنے والوں نے پرخلوص انداز مین محنت شاقہ کے بعد ایک کتاب تیار کی زندگی میں اسے پزیرائی نہ ملی لیکن آنے والی نسلوں نے اسی محنت کو جو سب کے لئے ورثہ تھی۔پر تمام حقوق بحق مصنف و ادارہ محفوظ ہیں کا لیبل لگا کے اثاثہ تجارت بنالیا ۔
باقی کی مجلدات میں زیادہ محنت درکار ہوگی۔عربی سے اردو ترجمہ۔کمپوزنگ۔اور متعلقہ تصاویر۔جڑی بوٹیوں کی شناخت وغیرہ۔لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان چیزوں کے لئے کثیر سرمایہ اور وقت ۔محنت اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس وقت وسائل مل بھی جائیں تو فرصت عنقاء ہوتی ہے۔
محترم قارئین سے ملتمس ہوں کہ وہ میرے لئے میرے والدین اساتذۃ کرام اور میرے بیٹے سعد یونس یونس مرحوم کے لئے ضرور دعا کریں۔ممکن ہے آپ کی دعائیں ہمارے لئے ذخیرہ آکرت بن جائیں ۔خلق خدا کی نفع رسانی عین منشائے خداوندی ہے۔پھر طب تو ایک ایسا ہنر و فن ہے جس سے ہر مذہب و ہر طبقہ کے لوگ استفادہ کرتے ہیں ۔یہ میدان رنگ و نسل ۔قوم رنگت کی چھوت سے ماوارء ہے۔کیونکہ خدمت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔نہ خدمت قومیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔جوکام بھی انسانیت کی بنیاد پر کیا جائے گا اس میں اتنی ہی وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔
از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔