الاطعمہ والاشربہ فی عصر رسول ﷺ
الاطعمہ والاشربہ فی عصر رسول ﷺ
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں کونسی غذائیں اور کونسے مشروبات استعمال کئے جاتے تھے، اوراس وقت کھانے پینے کا معیار کیا تھا۔اس وقت کی معاشرت و معیشت کیا تھیں۔سعد طبیہ کالج کے محقیقن کی محنت کا ثمرہ ۔آپ کے ہاتھوں میں
تحریر ::۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
الاطعمہ والاشربہ فی عصر رسول ﷺ
کا اردوترجمہ
خلاصہ کتاب۔
اس کتاب میںرسول اللہ ﷺکے زمانے میں کھانے پینے کے بارہ میں بحث کی جائے گی،امہات کتب احادیث میں اس کی واضح صورت موجود نہ تھی، مختلف انداز میں یا واقعات کے ضمن میں کچھ باتیں لکھی گئی ہیں ،اس لئے بحث کو مکمل کرنے کے لئے ،اس کے لئے دیگر منابع و مصادر کی ضرورت پیش آئی تاکہ واضح خاکہ پڑھنے والوں کے سامنے آسکے۔زمانہ رسول ﷺمیں اکل و طعام کے بارہ میں لوگوں کے رجھانات اور اہل اسلام کی عسرت گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء کے بارہ میں بہترین خاکہ دیکھنے کو ملے۔اس مقصدکے لئے دوسرے مصادر و ماخذات جیسے کتب تاریخ۔لغت۔ادب وغیرہ سے مدد لی۔تاکہ پڑھنے والے کے لئے ایسی تصویر کشی کی جاسکے جو ماحول اور تمدن کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرسکے۔
کچھ چیزیں محدثین ومفسرین نے ذکر کی ہیں لیکن جو چیزیں ان کے موضوع کی نسبت سے اس قابل نہ تھیں کہ انہیں اپنی کتاب میں درج کیا جائے،غیر اہم سمجھ کر ترک کردی گئیں۔کچھ باتیں مورخین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں انہوں نے ان کا ذکر کردیا،لیکن یہ بھی موضوع اور ضرورت کے تحت تھا۔ان باتوں کو جمع کرنے کا التزام نہ کیا گیا تھا۔
کچھ باتیں اللہ تعالیٰ نے ادیبوں اور شاعروں کے حصے میں رکھی تھیں انہوں نے ان چیزوں کو بھی سینے سے لگایا جو دوسرے لوگ غیر اہم سمجھ کر چھوڑ چکے تھے۔انہوںنے گھروں میں ہونے والی باتیں،خلوت و جلوت میں کھائی جانے والی اشیاء۔اکل و شرب کو اپنے انداز سے محفوظ کردیا۔گوکہ ان کی اس حرکت کو اچھی نگا ہ سے نہیں دیکھا گیا ،مثلاََ ۔الأغاني۔۔المؤلف: علي بن الحسين بن محمد بن أحمد بن الهيثم المرواني الأموي القرشي، أبو الفرج الأصبهاني (المتوفى: 356هـ) وغیرہ کتابیں کب وہ مرتبہ حاصل کرسکیں جومذہبی کتب ،یا تاریخی کتب کو ملا ۔یہ ایسا خلاء ہے جس کی کمی آج تک موجود ہے۔تمدنی اور تہذیبی مواد اور خاکہ کم دستیاب ہے کیونکہ اس طرف لوگوں نے کم توجہ دی۔یہی شکایت مولانا شبلی نعمانی کو “الفاروق” کے مواد اخذ کرنے میں رہی۔آج جن چیزوں کو جن چیزوں کو اکابرین نے اہم سمجھ کر ہمارے لئے محفوظ کیا،اس وقت ان کی اہمیت بہت زیادہ تھی ان کی گھن گرج کے آگے کسی کی نہ سنی جاتی تھی،لیکن آج تغیر ایام نے ہمیں زندگی کا بدلا ہوا رخ دکھایا ہے کہ انہوں نے جن چیزوں کو اہمیت دی تھی اغیار تو کیا خود مسلمانوں کے نادر بے توقیر ہوکر رہ گئی ہیں۔جب سےدین کے نام پر دکانداریاں شروع ہوئیں، مفادات کی جنگ نے ہر مفاد کو اسلام کا لبادہ اڈھایا تو یہ چیزیں ہمارے نزدیک مفادات کا تحفظ بن کر رہ گئیں۔جو اصول و قانون اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دئے تھے ان آفاقی تعلیمات کو مسلمانوں نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔کیونکہ ہمیں اسی قدر دین چاہئے،جس سے مفادات کا تحفظ ہوسکے باقی کی ہمیں ضرورت نہیں۔ خیر موضوعاتی مواد کے حصول کے لئے دستیاب مواد سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے،ہمارے کام کوشش کرنا ہے اس کی قبولیت کے اللہ سے امیدوار ہیں۔ہم نے جہاں سے جو چیز دستیاب ہوسکی لے لی،ساتھ حوالہ دیدیا،تاکہ کوئی باۃمت انسان اس کام کو پورے اعتماد سے آگے بڑھا سکے۔
بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں (1)الاطعمہ یعنی ماکولات۔کھانے کی اشیاء(2)الاشربہ۔مشروبات۔یعنی پینے والی اشیاء۔ماکولات کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔اول۔عمومی غذائی اجناس جیسے گندم،جو،چاول،کھجور ۔مکئی اور کئی قسم کے گوشت وغیرہ۔سوم۔مصنوعی طورپر تیار شدہ مصنوعات جیسے،میوہ جات،سرکہ جات،چکنائیاں،عصارے،مربہ جات۔چہارم۔پھل سبزیاں او ر ساگ پات وغیرہ۔پنجم،مختلف طریقوں سے بنائے جانے والے کھانے۔
مشروبات میں جیسے شراب۔نبیذ۔عصارہ جات،شہد۔مختلف اجناس سے تیار کئے جانے والے مشروبات شرابیں وغیرہ۔
سائنسی اصول کے مطابق غذا میں پانچ اجزاء کی موجودگی لازم ہے(1)پروٹین یعنی لحمی اجزاء (2)کاربو ہائیڈریٹس۔نشاشتہ اور شکر(3)فیٹس۔روغن آئل وغیرہ (4)سالٹ یعنی نمک(5)حیاتیں یعنی وٹامن۔
پروٹین (لحمیات)Proteins
پانی کے بعد جسم میں سب سے زیادہ پروٹین ہی کی ہوتی ہے عضلات، بافتوں ، خون ، دانتوں اور ہڈیوں میں ہوتی ہے اس میں کاربن،آکسیجن اور نائٹروجن پائے جاتے ہیں کچھ پروٹین میں سلفر،فاسفورس،لوہا،آیوڈین اور کوبالٹ بھی ہوتے ہیں،پروٹین سے جسم کی نشو و نما ہوتی ہے ،اس کے علاوہ یہ جسم کو طاقت و حرات بخشتی ہیں،روز مرہ کی غذا میں پروٹین کا مناسب مقدار میں پایا جانا ضروری ہے۔پروٹین حیوانی ونباتاتی دونوں قسم کی غذاؤں میں پائی جاتی ہے زیادہ بہتر پروٹین حیوانی غذاء میں پائی جاتی ہے جیسے گوشت،انڈا ،مچھلی، دودھ،دہی وغیرہ ،نباتاتی غذاؤںمیں گیہوں،مٹر لوبیا،سیم،ماش،مونگ،مسور وغیرہ میں بھی پروٹین بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے۔ایک دن میں صحت مند انسان کو تقریبا دو چھٹانک پروٹینی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے ۔
کاربو ہائیڈریٹس(نشاستہ)Carbohydrates
کاربوہائیڈریٹس جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے اور قوت بخشتی ہے ہضم کے وقت نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے یہی شکر بعد میں گلائی کوجن(Glycogen)یا حیوانی شکر میں تبدیل ہوجاتی ہے اور جسم کو حرارت و توانائی پیدا کرنے کے لئے صرف ہوتی ہے اس قسم کی غذا اگر ضرورت سے زیادہ کھائی جائے تو جسم کا وزن بڑھنے لگتا ہے ۔ایک جوان آدمی کے لئے 24گھنٹوںمیں12تا 13چھٹانک نشاستہ دار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔شکر چاول ، گندم ،اراروٹ اور آلو وغیرہ میں بہت زیادہ نشاستہ پایا جاتا ہے ۔
چکنائی(ٖFats)
چربی ،گھی اور تیل وغیرہ جیسی غذائیں چکنائی میں شمارہوتی ہیں چکنائی جسم میںگرمی وحرات پیداکرتی ہے صحت کے لحاظ سے مختلف لوگوں کے لئے مختلف وزن میں درکار ہوتی ہے دن رات میں ایک چھٹانک چکنائی کافی ہوتی ہے لیکن ایک محنت کش کے لئے دو چھٹانک تک درکار ہوتی ہے ،زیادہ چکنائی کھانے کی صورت میں ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے ،جسم میں جمع ہوکر موٹاپے کا سبب بنتی ہے۔شکر و نشاستہ کے مقابلہ میں چکنائی دوگنی مقدار میں گرمی پیدا کرتی ہے۔
نمکیات(Salts)
معدنی(minerals)اور دوسرے نمکیات کے بغیر انسان تندرست نہیں رہ سکتا یہ نمکیات خون ہڈیوں اور گوشت کی ساخت میں کام آتے ہیںجسم کے ان تمام کیمیاوی اعمال میں جن پر کہ زندگی کا انحصار ہے ان نمکیات کا ہونا لازمی ہے ۔جسم میں نمکیات کی کمی خون کی سستی کا سبب عام کھانے کا نمک تو غذا کے ساتھ ہی کھایا جاتا ہے لیکن دوسرے نمکیات جو سبزیوں،ترکاریوں یاغذاؤں میں پائے جاتے ہیں کا جسم میں پہنچنا ضروری ہے،یہی وجہ ہے کہ جب سبزیاں ترکاریاں یا پھل نہیں کھائے جاتے تو مذکورہ نمکیات کی کمی سے کئی امراض پیدا ہوجاتے ہیںایک جوان آدمی کو دن رات میں پونے چمچ سے لیکر آدھا چھٹانک مختلف قسم کے نمکیات کی ضرورت ہوتی ہے ۔
حیاتین (vitamins)
حیاتین ایسے اجزاء کا مرکب ہیںجو کئی قسم کی خوراک میں تھوڑی بہت مقدار میں پائے جا تے ہیں یہ انسانی صحت کی بقا کے لئے بے حد ضروری ہیں،غذا میں ان کی عدم موجودگی سے کئی قسم کے امراض وعلامات پیدا ہوتی ہیں ۔
ہمارا کچن ہی ہمارا دوا خانہ ہے، کبھی غور وفکر سے کام لیں تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ دیسی طریق علاج بے ضرر فائدہ سے بھرپور اور غذائی ہے اس کے اجزاء کو غذا اور بطور دوا کام میں لایا جاسکتا ہے، مختلف اقسام کے غلے۔گوشت مچھلیاں ۔انڈے،سبزیاں پھل دودھ بالائی مکھن وہی وغیرہ ہمارے دسترخوان پر سجی اشیاء اور ذائقہ پیدا کرنے کی غرض سے ڈالے گئے مصالحہ جات میں دوا سے غذائی فوائد زیادہ ہیں اس کے علاوہ میوہ جات، گڑ، شکر، شہد اور نمکیات ،مصالحوں میں الائچی ،ہلدی
،لہسن، پیاز ادرک، زیرہ سفید وغیرہ۔دیسی طب پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے اکثر مفردات و مرکبات اغذیہ و پھل و پھولوں سے ترتیب دئے جاتے ہیں خمیرہ جات ،لعوق چٹنی مربہ شربت ،عرق جوشاندے بے پناہ فوائد کی حامل اشیاء ہیں جو دوسرے طریق علاج میں دکھائی نہیں دیتیں، کوئی بھی معالج و طبیب اس بات سے انکار نہیں کرسکتا ہے قدرت نے انسان کے رہنے کے لئے جو مقام و ملک متعین کیا ہے اس کی غذائی و دوائی ضروریات بھی اسی زمین میں رکھ دی ہیں، مقامی غذاؤں اور دواؤں سے بڑھ کر کوئی چیز مفید نہیں ہوسکتی۔ہمارے خطہ میں خاندانی نظام بہت منظم و مربوط انداز میں چلا آرہا ہے جس سے دیگر اقوام محروم ہوچکی ہیں ۔(ہماری کتاب:گھریلو اشیاء کے تیر بہدف فوائدسے اقتباس)