اطباء کے لئےبقراط حلف نامہ
اطباء کے لئےبقراط حلف نامہ
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
#حلف_نامہ_بقراط :
مارٹی ایبانیز (Marti Ibanez) نے 1961ء میں یونیورسٹی آف ایلڈلیڈ میںبقراط کے کام پر تحقیقی مقالہ شائع کیا ۔ اس مقالے کے صفحہ 217 پر مارٹی نے لکھا کہ حلف نامہ بقراط طبی پیشے کی اخلاقیات کے حوالے سے بہت ھی شاندار دستاویز ھے ۔ اس حلف نامے کو بقراط کا اھم ترین کام تسلیم کیا جاتا ھے ۔ حلف نامہ بقراط مقبول ترین دستاویز ھے ۔1961ء میں مارٹی ایبانیز نے حلف نامہ بقراط پر نئے سرے سے تحقیق کی اور ثابت کیا کہ یہ دستاویز بقراط نے ھی لکھی اور ترتیب دی تھی۔ یہ دستاویز طبی اخلاقیات کی بنیاد بھی ھے اور بہت سے طبی اقرار ناموں اور قوانین کی بھی بنیاد ھے ۔
اس دستاویز نے طبی پیشے کو بہترین بنانے میں طبی اخلاقیات کو استحکام بخشا ھے ۔ اس حلف نامے کو آج بھی میڈیکل گریجوایٹس ڈگری حاصل کرتے وقت انہی الفاظ میں دھرا کر تجدید عہد کرتے ھیں ۔ کہا جاتا ھے بقراط سے پہلے علم طب صرف مخصوص خاندانوں تک محدود تھا ۔ یہ علم سینہ بہ سینہ دادا سے باپ اور باپ سے بیٹے کو منتقل ھوتا تھا ۔ لیکن بقراط نے علم طب پر کتابیں لکھیں اور اس علم کو عام کر دیا ۔ اب اسے اندیشہ تھا کہ اس علم سے نااہل لوگ غلط اور خلاف اخلاق کام لیں گے اس لیے ضروری تھا کہ طب کے طالب علموں سے ایک ایسا حلف لیا جائے کہ فارغ التحصیل طبیب ایک اخلاقی دائرے کے اندر رہ کر عوام الناس کے لئے خدمات سرانجام دیں ۔
باور رھے کہ بقراط نے خدا کے لئے لفظ Devine استعمال کیا ھے یہ نام خدائی صفات کا احاطہ کرتا ھے ۔ خدا جو کہ زندگی عطا کرنے والا ھے ، وھی موت طاری کرتا ھے ، وہ صحت عطاء کرنے والا اور شفاء کا خالق بھی ھے ۔ خدا ھر بیماری کا علاج بھی وجود میں لایا ھے اس لئے میں اس کی عظمت کی قسم اٹھاتا ھوں ، اس کے بعد اسقلی بیوس اور تمام دیوی دیوتائوں کی قسم اٹھا کر اقرار کرتا ھوں کہ میں اپنے عہد کو پورا کروں گا اور اس شرط کی پابندی پر ثابت قدم رھوں گا ۔ میں اپنے استاد کو جس نے مجھے طب کی تعلیم دی اپنے باپ کی مانند جانوں گا۔ اپنے استاد کی ھر طرح کی خدمت کروں گا اور اپنی جائز آمدنی میں سے استاد کا حصہ بھی رکھوں گا ۔ اگر استاد محترم کو میری مدد کی ضرورت ھو گی ، خواہ مالی ہو یا جسمانی تو استاد کی یہ خدمت بجا لائوں گا ۔ استاد کی اولاد کو اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح سمجھوں گا اور ان کی تعلیم و تربیت کرنا میرا فرض ھو گا۔ میں استاد کی اولاد سے کسی قسم کی اجرت نہ لوں گا ۔ میں اپنے استاد اور اپنے ھم مکتبوں کو بھی بھائیوں کی طرح سمجھوں گا میرے ھم مکتبوں نے جو میری طرح عہد کیا ھے میں ان کی عزت و احترام میں کوئی کوتاھی نہ کروں گا۔ طبی علوم و مسائل کی عزت قائم رکھنے میں استاد کی ھدایات پر جو عمل کرنے کی قسم اٹھائی ھے اس کو خلوص دل سے پورا کروں گا۔
میں ھر ممکن کوشش کروں گا کہ ھر ایک تدبیر علاج میں بیماروں کے فائدہ کے لئے کام کروں اور یہی میرا مقصد حیات ھو گا۔ میرے زیر علاج مریضوں کو جن چیزوں سے تکلیف یا نقصان ھونے کا خطرہ ھو گا ، میں ان چیزوں اور کاموں سے دور رھوں گا ۔ میں مہلک دوا کسی کو نہ دوں گا ، بے شک ایسی مہلک دوا مجھ سے مانگی ھی کیوں نہ جائے اور نہ ھی میں کسی مریض کو ایسی دوا بتاؤں گا جو زھر قاتل ھو ۔
میں عہد کرتا ہوں کہ میں عورتوں کو اس طرح کی کوئی دوا نہ دوں گا جس سے ان کا حمل ضائع ھو جائے ۔ میں اپنے پیشے کا احترام قائم رکھوں گا اور دوا تجویز کرنے میں پوری طرح سوچ سمجھ کر کام کروں گا اور اپنی پاک دامنی کا پورا خیال رکھوں گا۔
جس کے مثانہ میں پتھری وغیرہ ھو اس پر خود جراحی کا عمل نہ کروں گا بلکہ یہ کام ایسے قابل شخص کے سپرد کیا جائے گا جو اس میں مہارت رکھتا ھو ۔ جس گھر میں جاؤں گا مریض کے فائدے کے لئے کام کروں گا اور کسی برائی کا خیال دل میں نہ لاؤں گا۔ ھر کام میں میانہ روی کا پابند رہوں گا اور مریضوں کے راز کو کبھی کسی پر ظاھر نہ کروں گا۔ کسی مریض کی شرمناک حالت کا ذکر کسی سے نہ کروں گا ۔ میرا پیشہ مقدس ھے اور اس عہد کی خلاف ورزی کا انجام طبیب کی بدنامی ہوگا۔(’’بقراط:حیات ، فلسفہ اور نظریات‘‘ سے مقتبس)