اصول طب
پیش لفظ
انسان اور حیوان میں بنیادی فرق نطق اور شعور کا ہے۔ ان دو خدا داد صلاحیتوں نے انسان کو نہ صرف اشرف المخلوقات کا درجہ دیا بلکہ اسے کائنات کے ان اسرار ورموز سے بھی آشنا کیا جو اسے پہنی اور روحانی ترقی کی معراج تک لے جاسکتے تھے۔ حیات وکائنات کے مخفی عوامل سے آگہی کا نام ہی علم ہے۔ علم کی دو اساسی شاخیں ہیں باطنی علوم اور ظاہری علوم ۔ باطنی علوم کا تعلق انسان کی داخلی دنیا اور اس دنیا کی تہذیب و تطہیر سے رہا ہے۔
مقدس پیغمبروں کے علاوہ، خدا رسیدہ بزرگوں، کے صوفیوں اور سنتوں اور فکر رسا رکھنے والے شاعروں نے انسان کے باطن کو سنوار نے اور نکھارنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ سب اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ ظاہری علوم کا تعلق انسان کی خارجی دنیا اور اس کی تشکیل و تعمیر سے ہے۔ تاریخ اور فلسفہ، سیاست اور اقتصاد، سماج اور سائنس و غیرہ علم کے ایسے ہی شعبے ہیں۔ علوم داخلی ہوں یا خارجی ان کے تحفظ و ترویج میں بنیادی کردار لفظ نے ادا کیا ہے۔ بولا ہوا لفظ ہو یا لکھا ہوا لفظ ، ایک نسل سے دوسری نسل تک علم کی منتقلی کا سب سے موثر وسیلہ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے
لکھے ہوئے لفظ کی عمر بولے ہوئے لفظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے انسان نے تحریر کا فن ایجاد کیا اور جب آگے چل کر چھپائی کا فن ایجاد ہوا تو لفظ کی زندگی اور اس کے حلقہ اثر میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
کتابیں لفظوں کا ذخیرہ ہیں اور اسی نسبت سے مختلف علوم وفنون کا سر چشمہ ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا بنیادی مقصد اردو میں اچھی کتا بیں طبع کرنا اور انھیں کم سے کم قیمت پر علم وادب کے شائقین تک پہنچانا ہے۔ اردو پورے ملک میں کبھی جانے والی ، بولی جانے والی اور پڑھی جانے والی زبان ہے بلکہ اس کے سمجھنے، بولنے اور پڑھنے والے اب ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔
کونسل کی کوشش ہے کہ عوام اور خواص میں یکساں مقبول اس ہر دلعزیز زبان میں اچھی نصابی اور غیر نصابی کتابیں تیار کرائی جائیں اور انھیں بہتر سے بہتر انداز میں شائع کیا جائے ۔
اس مقصد کے حصول کے لیے کونسل نے مختلف النوع موضوعات پر طبع زاد کتابوں کے ساتھ ساتھ تنقید میں اور دوسری زبانوں کی معیاری کتابوں کے تراجم کی اشاعت پر بھی پوری توجہ صرف کی ہے۔ یہ امر ہمارے لیے موجب اطمینان ہے کہ ترقی اردو بیورو نے اور اپنی تشکیل کے بعد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے مختلف علوم وفنون کی جو کتا میں شائع کی ہیں ، اردو قارئین نے ان کی بھر پور پذیرائی کی ہے۔
کونسل نے ایک مرتب پروگرام کے تحت بنیادی اہمیت کی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو امید ہے کہ ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرے گی۔
اہل علم سے میں یہ گزارش بھی کروں گا کہ اگر کتاب میں انھیں کوئی بات نا درست نظر آئے تو
ہمیں لکھیں تا کہ جو خامی رہ گئی ہو وہ انگلی اشاعت میں دور کر دی جائے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ ۔ڈائرکٹر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف ہذا
والد مرحوم و مغفور حاذق الحکماء جناب سید محمد ریاض الدین حسین صاحب عرف حکیم احسن صاحب کے اسم گرامی کے ساتھ معنون کرتا ہوں کہ آپ ہی کے فنی فیضان کے باعث فنِ طب کے حصول کی لیکن میرے دل میں پیدا ہوئی اور آپ ہی کی دعاؤں کے اثر سے اس فن کی دشوار گذار منزلیں میرے اثر سے اس نیک دشوار گذارد ۔واسطے آسان ہو ئیں ۔
والد صاحب قبلہ نے جلالی ضلع علی گڑھ میں نہ صرف اپنے خاندان میں فین طب کو باقی رکھا بلکہ سعی بلیغ سے اس میں چار چاند لگائے اور اپنی شانِ حکیمانہ سے ایک نئی روح پھونکی آپ نے جلالی میں مسلسل پچاس برس طبی خدمات کامیابی کے ساتھ انجام دیئے اور تمام عمر میں جو تجربات آپ کو حاصل ہوئے انھیں آپ نے ایک ضخیم کتاب میں مرتب و مدون فرمایا اور اس کتاب کو ریاض الادویہ کے نام سے موسوم کیا ۔ علم طب کے ساتھ آپ کیمیا میں بھی مہارت کامل رکھتے تھے اور جملہ دھاتوں اور احتجازہ نفسیہ کو کشتہ کرنے میں ماہر تھے اور یہ علم آپ نے علامہ محمد ابراہیم علی خاں صاحب روحی (طبیب خاص ریاست ٹونک راجستھان) سے با قاعدہ حاصل فرمایا تھا۔ آپ کے کتب خانہ میں علم کیمیاں بھی نادر ذخیرہ موجود ہے۔ آپ کا تحقیقی کام جاری تھا کہ فالج کا حملہ ہوا اور اسی مرض میں آپ نے عنہ میں وفات پائی اور مزار سید خیرات علی واقع پیش مدار دروازه گروهی جلالی میں جو آپ کا آبائی ابدادی قبرستان ہے مدفون ہوئے ۔
سید محمد کمال الدین حسین ہمدانی