- Home
- نایاب طبی کتب
- اصطلاحات کلیات ا ...


اصطلاحات کلیات ادویہ وصیدلہ
تقدم
پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن ندوی
طبی نصاب میں کلیات ادویہ کے عنوان سے جو موضوعات شامل ہیں ان پر نصابی کتابوں میں کافی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اور حال ہی میں بعض اچھی کوششیں سامنے آئی ہیں اس مضمون میں ادویہ کے افعال کلیہ بطور اصطلاح ” مروج ہیں ۔ کلیات ادویہ کے مباحث میں وہ کچھ اس طرح گم ہو جاتے ہیں کہ طالب علم کی ضروری توجہ ان کی طرف منعطف نہیں ہوتی ہے۔ یہ میں نے پہلے بھی کسی موقع پر لکھا ہے کہ ان کی وضاحت اور ان کی تعلیم و تدریس اس طرح ہونی چاہئے کہ معالجات سے ان کا رشتہ قائم ہونے میں مدد ملے اور ان کی افادی اور اطلاقی حیثیت سامنے آئے اس مضمون میں انہیں شامل کرنے کا اصل مقصد اسی طور پر پورا ہو سکتا ہے ان کی نوعیت عمل مرضی مواد پر ان کی اثر اندازی اور خلط کے بنیادی نظریہ سے دوا کے فعل کے مطابقت کے ذریعہ کلیات کا ادویہ سے اور ادویہ کا معالجات سے رشتہ واضح ہوتا ہے اور یونانی نظام علاج کی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔
کلیات ادویہ کی کتابوں میں ان اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا موقع استعمال نہیں دکھایا گیا ہے۔ اور مختلف امراض میں دواؤں کے ان افعال سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاتا ہے اس کی توضیح نہیں کی گئی ہے۔ مثلاً یہ کہ محلات سے کہاں کہاں کام لیا جا سکتا ہے۔ مسکن ادویہ کن کن امراض میں مفید ہوتی ہیں۔ رادع ، مسہل ، جاذب محمر ، عاصر و غیرہ افعال کی حامل دواؤں سے کہاں اور کیسے کام لیا جائے ۔ اس طرح مزاج اور درجات کے لحاظ سے مختلف گروپ میں تقسیم کر کے ان کی نوعیت کار پر جو روشنی پڑتی ہے مثلاً جاذب، حالی، حکاک، قاشر ، کاوی، لاذع مبشر محمر مسخن مجلل، مسهل، منفط مفتح، ملطف وغیرہ جو حار مزاج کی حامل ہیں اور جن کے فعل کے لیے مختلف درجہ کی حرارت اور لطافت درکار ہے اسی طرح حابس، رادع ، عاصر ، قابض، مبرد، محمد مخدر، منوم ، مسکن، مغلظ، ممسک جو بارد مزاج کے
تابع ہیں اور جن کے عمل کے لیے خاص درجہ کی برودت اور قبض کی ضرورت ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف مزاج ادویہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور کلیات ادویہ سے رشتہ قائم نظر آتا ہے وہاں مختلف امراض کے علاج میں ان افعال کلیہ کے حامل دواؤں سے کام لینے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ کامیاب معالج اور فن نسخہ نگاری کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس شعور کے بغیر دوا کا انتخاب اور مرض سے دوا کے تعلق کی نوعیت سمجھ میں نہیں آتی ہے ان افعال کلیہ پر اگر اس وضاحت کے ساتھ لکھا جائے تو علمی و عملی دونوں لحاظ سے یہ بہت مفید اور کار آمد بات ہوگی ۔ کلیات ادویہ کی تدریس کے دوران میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اس طرز تعلیم سے طلبہ کے ذہن پر ان کا اطلاقی پہلو اور معالجاتی افادیت کا اثر قائم ہوتا ہے۔
پیش نظر کتاب میں اگر چہ اس انداز پر توضیح نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے ذریعہ اصطلاحات اہمیت کے ساتھ یکجا طور پر جمع ہوگئی ہیں۔ مولف نے انگریزی لغات سے بھی ان کی تشریح میں مدد لی ہے اور اسی کے ساتھ اس کا دائرہ بڑھا کر صیدلہ و تکلیس کی اصطلاحات کو بھی سمیٹ لیا ہے۔ اس طرحان کی اس کوشش سے ادویہ کی ضروری مصطلحات کے مطالعہ میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور طالب علم کی توجہ بڑھتی ہے یہ محض لغت نویسی کے طرز کا کام نہیں ہے بلکہ ایک صاحب فن طبیب کی فنی اصطلاحات کی

توضیح کے سلسلہ میں ایک کامیاب کوشش کا اظہار ہے۔
حکیم سید فضل اللہ قادری بہار کے ایک محترم علمی خانوادہ ۔ ترم علمی خانوادہ کے فرد ہیں علم اور تصنیف کا ذوق انہیں ورثہ میں ملا ہے ان کے والد گرامی مولانا سید احمد عروج قادری اسلامیات کے بہت ممتاز مصنف تھے ایک درجن سے زیادہ علمی کتابیں ان کی یادگار ہیں فضل اللہ قادری نے ندوۃ العلماء لکھنو سے فراغت کے بعد گورنمنٹ طبی کالج واسپتال پٹنہ میں طب کی تعلیم حاصل کی وہاں انہیں محبت محترم حکیم سید علیم الدین بلخی ندوی جیسے فاضل عصر استاد کے دامن فیض سے استفادہ کا موقع ملا ان کی فکری وفنی تربیت میں موصوف کا خاص حصہ ہے۔ میں ان سے ان کی طالب علمی کے دور سے واقف ہوں۔ ہونہار سنجیدہ اور درس و تدریس میں مصروف ہیں اصطلاحات ادویہ ان کی پہلی کاوش ہے گو کہ وہ انجمن خدام طب کے زیر نگرانی نکلنے والے مجلہ طبیب کے دو شماروں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ امید ہے کہ وہ تصنیفی سلسلہ کو جاری رکھیں گے اور ان کی مزید قلمی کاوشیں منظر عام پر آئیں گی۔
پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن ندوی۔( سابق ڈین فیکلٹی آف علم الادویہ )
تجارہ ہاؤس دودھ پورہ علی گڑھ