اسم اعظم
قران و احادیث اور اولیاء کی نظر میں
تحریر۔۔۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اسم اعظم
قران و احادیث اور اولیاء کی نظر میں
اسم اعظم ایک ایسا موضوع ہے جس پر امت کے نامور لوگوں نے بہت کچھ لکھاہے اسم اعظم کا تصور ایک عجیب تصور ہے۔ہر کوئی اسم اعظم کا متلاشی ہے حتی کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ نے بھی اس بارہ میں نبیﷺسے سوال کیا(جامع الأحاديث (23/ 284۔أخرجه ابن ماجه (2/1268 ، رقم 3859))۔اسم اعظم کی دس روایات تو ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانا اور اس قابل بنانا آپ کا کام ہے۔
اسم اعظم۔قرب خدا وندی۔
(۱)عبداللہ بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک شخص کو یہ کہتے سنا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ کُفُوًا أَحَدٌ تو فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا جس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ مالک عطا فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو اللہ قبول فرماتا ہے ۔ سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 737)
(۲)۔۔توسل کی دعا۔۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے لئے عافیت کی دعا کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اور اگر چاہو تو اسی (نابینا پن) پر صبر کرو۔ اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس نے عرض کیا، آپ میرے دعا ہی کر دیجئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد اس طرح دعا کرو اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي
حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی لِيَ اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ (یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول فرما) جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1535—
(3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی سخت آن پڑتا تو یہ دعا کرتے يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِيثُ (یعنی اے زندہ اور (زمین وآسمان) کو قائم رکھنے والے تیری رحمت کے وسیلے سے فریاد کرتا ہوں)جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1482)
(۴)حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذوالنون (حضرت یونس علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں کی جانے والی دعا ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسکی دعا قبول فرمائیں گے۔ وہ یہ ہے لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّي کُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ (یعنی تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تیری ذات پاک ہے۔ میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہو۔) جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1459) المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص (2/ 161، بترقيم الشاملة آليا) السنن الكبرى للنسائي (6/ 168)
:(5)حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو ان الفاظ سے دعا مانگتے ہوئے سنا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ کُفُوًا أَحَدٌ (یعنی اے اللہ میں تجھ سے اس وسیلے سے مانگتا ہوں کہ میں نے گواہی دی ہے کہ تو اللہ ہے؟ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تو تنہا اور بے نیاز ہے۔ جو نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اسکی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اسکے برابر ہے) ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس نے اللہ سے اسم اعظم کے وسیلے سے دعا کی ہے۔ اگر اس کے وسیلے سے دعا کی جائے تو قبول کی جاتی ہے اور اگر کچھ مانگا جائے تو عطاء کیا جاتا ہے۔ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1429- سنن أبى داود (1/554) شرح السنة للبغوي (2/ 391)
(۶)نبیﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے ایک آدمی نے آکر نماز پڑھی اور یہ دعا مانگی: اللهم لا إلا أنت المنان بديع السموات والأرض ذا الجلال والإكرام نبیﷺ فرمایا اس نے اسم اعظم توسط سے دعاہے تو قبول ہوتی ہے۔مانگا جائے تو ملتا ہے۔ سنن الترمذي (5/ 550۔سنن أبى داود (1/ 554۔السنن الكبرى للنسائي (1/ 386۔مشكل الآثار للطحاوي (1/180، بترقيم الشاملة آليا)
(۷)ایک بزرگ فرماتے ہیں میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسی چیز دکھائے جس کے توسط سے مانگا جائے تو قبول ہو(یعنی اسم اعظم)تو میں نے ایک ستارہ پر لکھا ہوا دیکھا يا بديع السماوات والأرض يا ذا الجلال والإكرام۔ص.244رواه أبو يعلى ورجاله ثقات۔مجمع الزوائد ومنبع الفوائدمحقق (11/ 24۔)المطالب العالية للحافظ ابن حجر العسقلاني [9 /404.
(۸)تین سورتوں میں اسم اعظم موجود ہے۔سورہ بقرہ ۔آل عمران۔سورہ طہ۔(اور وہ یاحی یاقیوم ہے)جامع الأحاديث (4/ 399۔أخرجه ابن ماجه (2/1267 ، رقم 3856)، والحاكم (1/686 ، رقم 1866) والطبرانى (8/183، رقم 7758) وابن مردويه كما فى تفسير ابن كثير (1/308) والبيهقى فى الأسماء والصفات (ص 19) وأخرجه أيضا : الطبرانى فى الأوسط (8/192 ، رقم 8371۔
بدر کے موقع پر نبیﷺ نے سجدہ میں بے شمار بار یا حی یا قیوم کہا حتیٰ کہ فتح ہوگئی۔بقول ابن عباس آصف بن برخیا سیدنا سلیمانؑ کو وزیر اسی اسم کی برکت سے پلک جھپکنے تخت بلقیس حاضر کردیا تھا۔معالم التنزيل [10 /120]الكشف والبيان ـ للثعلبى [9 /488]تفسير ابن أبي حاتم [11 /137]تفسير النسفي [3 /11]
(۹)نبیﷺہر فرض نماز کے بعد یہ الفاظ کہا کرتے تھے۔اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت ياذا الجلال والإكرامكرامات الأولياء (ص72(۹جامع الأحاديث (36/ 401)سنن الدارمي (1/ 358۔معجم الطبراني الصغير (ص 82المسند الجامع (22/395۔احادیث میں آیا ہے تم لوگ ان الفاظ کو لازم پکڑ لو کیونکہ یہ اسم اعظم ہیں۔المسند الجامع (49/ 118۔)
(۱۰)ایک بار حضرت عائشہ نے درخواست کی یا رسول اللہﷺ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جب مانگوں تو ملے سوال کروں تو پورا ہو۔فرمایا کھڑی ہوکر وضو کرو اور دوگانہ ادا کرو اور یہ کہو: اللهم إني أسألك بجميع أسمائك الحسنى كلها ، ما علمنا منها وما لم نعلم ، وأسألك باسمك العظيم الأعظم ، الكبير الأكبر
،الأسماء والصفات للبيهقي [1 /14]عمدة القاري شرح صحيح البخاري [21 /29]
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے اسم اعظم کے بارہ سوال
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے کسی نے پوچھا : اسم اعظم کیا ہے؟ تو آپ اسے لے کر دریا کے کنارے پر کہا، اور کہا کہ : اندر چل۔ وہ اندر داخل ہوا، تو آپ نے کہا: اور اندر۔ اسی طرح کرتے کرتے اس کی گردن تک پانی آ گیا، تو آپ نے کہا : اور اندر چل۔ تو اس نے کہاکہ: اس طرح تو ڈوب جاؤں گا۔ تو آپ نے فرمایا کہ : اسمِ اعظم تو تبھی پتہ چلے ، جب اور آگے جائے گا۔ وہ اور آگے ہوا تو غوطے کھانے لگا۔ تو آپ نے اسے پانی سے نکلوایا اور پوچھا کہ : صحیح بتاؤ! جب تمہیں غوطے آ رہے تھے تو دھیان میں کیا تھا کہ کون بچا سکتا ہے ؟ تو کہنے لگا : یہی تھا کہ بس اللہ ہی بچا سکتا ہے ۔ تو آپ نے فرمایاکہ : یہ ہے اسمِ اعظم ، کہ اللہ کا نام اس طرح لیا جائے کہ اللہ جل شانہ کے غیر کی طرف توجہ ہی نہ ہو۔
ایک چھوٹا سا پرندہ تھا، وہ اڑا چلا جا رہا تھا کہ دانہ دُنکا تلاش کر کے پیٹ بھروں ، کہ اس کے پیچھے ایک شکرہ لگ گیا۔اس چھوٹے سے پرندے کو جو پتہ لگا کہ میرے پیچھے شکرہ لگ گیا ہے، تو اس نے پوری قوت سے اڑنا شروع کر دیا، تاکہ جان بچے ۔ کافی دیر تک وہ اڑتا رہا، لیکن جدھر کو وہ جاتا، پیچھے ہی پیچھے وہ شکرہ بھی پہنچ جاتا، حتیٰ کہ یہ ننھا پرندہ اڑتے اڑتے تھک کر چور ہو گیا۔ جہاں یہ تھکا، وہیں وہ شکرہ بھی تھک کر چور ہوا۔ اور دونوں کے دل میں آئی کہ تھوڑی دیر کہیں بیٹھ جائیں ۔چنانچہ وہ ننھا پرندہ نیچے اتر کر ایک درخت کی ٹہنی پر جوگھنے پتوں سے ڈھکی ہوئی اور کافی نیچی تھی، بیٹھ گیا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ شکرہ بھی اسی درخت کے پاس آیا، اور اسی درخت کی اوپر والی ٹہنی پر بیٹھ گیا۔ اب پرندے کے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹھا رہے تاکہ شکرے کو اس کی موجودگی کا پتہ نہ چلے۔اور کسی لمحے شکرے کو غافل پا کر اڑے اور جان بچانے کی کوشش کرے۔
بہرحال، وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شکاری وہاں آ نکلا۔ اس نے جو پرندے چپ چاپ بیٹھا دیکھا تو خوش ہو گیا کہ چلو قریب ہی میں شکارمل گیا۔اپنا تیر کمان نکالا اور پرندے کو نشانہ باندھنے کی تیاری کرنے لگا۔پرندے کی نظر جب شکاری پر پڑی تو بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کروں ؟ اڑوں کہ بیٹھوں ۔۔۔ !! اڑوں تو شکرہ پکڑے، بیٹھا رہوں تو شکاری ۔ اوپر موت شکرے کی شکل میں ، نیچے موت
شکاری کی شکل میں ، نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن۔ اس گومگو کی حالت میں اس کے دل کی نگاہ اللہ جل جلالہ کی جانب اٹھی اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا : ’’اَللّٰہ‘‘۔ فوراً اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی، اور اس ننھے پرندے کی جان بچانے کا فیصلہ ہو گیا۔ اسی آن ایک کالا سانپ نکلا ، اور اس شکاری کے پاؤں پر لپٹ گا ، اور اس کی ٹانگ پر ڈس لیا۔ اور نشانہ جو اس ننھے پرندے پر بندھا ہوا تھا، اور چوک کر شکرے کو جا لگا۔ اس طرح دونوں مارنے والے مر گئے، اور اس پرندے نے جو اللہ جل جلالہ کو دو موتوں میں پکارا، تو اللہ جل شانہ کی نصرت آئی، اور دو موتوں کو موت آئی۔ تو بھئی!
اسم اعظم سے کیا مراد ہے؟ سجدہ کی حالت میں دعاء مانگنے کا حکم
سوال: (۱) اسم اعظم سے کیا مراد ہے، جن آیات میں اسم اعظم کا گمان غالب ہے ان کی نشاندہی کر دیں تو مہربانی ہوگی۔
(۲) سجدہ کی حالت میں دعاء مانگنا کیسا ہے؟
جواب: (۱) اسم اعظم عام طور سے اللہ تعالیٰ کے اس مبارک نام کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ دعاء کرنا زیادہ امید قبولیت رکھتا ہے، اس نام مبارک کی تعیین میں مختلف احادیث و روایات اور علماء کے مختلف اقوال ہیں، حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ کی موجودگی میں ان الفاظ سے دعاء شروع کی اللھم انی اسألک بان لک الحمد لا الہ الا انت الحنان المنان بدیع السموات و الارض یا ذا الجلال و الاکرام یا حی یا قیوم اسألک۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دعا اللہ باسمہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب و اذا سئل بہ اعطی (۱) اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کے ذریعے دعاء مانگی ہے جس کے ذریعے جب بھی دعاء کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور اس کے ذریعے جب کوئی چیز مانگی جائے وہ دے دیتا ہے، نیز بعض روایات میں ہے کہ اسم اعظم سورۃ بقرۃ، آل عمران اور سورۂ طہ ہیں۔ مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے {و الھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم} اور {الم اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم}۔
(۲)بعض صحابہؓ سے مروی ہے کہ “الحی القیوم” اسم اعظم ہے، امام رازیؒ اور علامہ نوویؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے، علامہ جزریؒ نے فرمایا ہے کہ میرے نزدیک اسم اعظم لا الہ الا ھو الحی القیوم ہے۔ بعض حضرات نے لفظ “رب “کو اور بعض نے لفظ “اللہ” کو اسم اعظم قرار دیا ہے (۳)، اور بعض علماء نے فرمایا کہ “اسم اعظم” ایک راز ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہے۔ علماء محققین نے اس سلسلے
———————————–
(۱) رواہ الترمذی و ابو داؤد و النسائی و ابن ماجہ (و مشکوٰۃ المصابیح باب اسماء اللہ تعالیٰ ج۱ ص۱۹۹، ۲۰۰) طبع قدیمی کتب خانہ۔
(۲) و فی مشکوٰۃ المصابیح ج۱/ص۲۰۰ عن اسماء بنت یزید ان النبی ﷺ قال اسم اللہ الاعظم فی ھاتین الآیتین: الھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم، و فاتحۃ آل عمران الم اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم، رواہ الترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ و الدرامی۔
(۳) امام رازی، علامہ نووی، علامہ جزری رحمہم اللہ اور بعض دیگر حضرات کے مذکورہ بالا اقوال کے لئے دیکھئے مرقاۃ المفاتیں ج۵/ص۱۰۲ (طبع مکتبہ امدادیہ ملتان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ فرمایا ہے کہ درحقیقت تمام اسماء باری تعالی عظیم ہیں اور کسی کو کسی پر فضیلت نہیں،لہٰذا ایسا اسم اعظم جس سے زیادہ عظمت کسی اسم باری کو حاصل نہ ہو مستند روایات سے ثابت نہیں ہے اور جن جن اسماء کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ وہ اسم اعظم ہیں ان سے مراد یہ ہے کہ یہ بھی باری تعالیٰ کے عظیم اسماء میں سے ہیں اور ان کے ذریعے خاص طور پر دعاء قبول ہوتی ہے، اسی لئے اس بارے میں مختلف روایات مروی ہیں۔
اور متفقہ طور پر کسی ایک نام کو علی الاطلاق اسم اعظم کہنا مشکل ہے، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا تمام اقوال نقل کرنے کے بعد امام طبرانیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: و عندی ان الاقوال کلھا صحیحۃ اذ لم یرد فی خبر منھا انہ الاسم الاعظم و لا شیء اعظم منہ۔ (مرقاۃ المفاتیح ص۱۰۲ ج۵ باب اسماء اللہ تعالی، طبع مکتبہ امدادیہ ملتان)
(۲) فرائض کے رکوع و سجود میں تو اذکار مسنونہ کے سوا کچھ اور نہ پڑھنا چاہئے، البتہ نوافل کے سجدے میں دعاء درست ہے، لیکن دعاء ماثورہ ہو یا کم از کم عربی زبان میں ہو اور آخرت سے متعلق ہے۔
لما فی الدر المختار و دعا بالعربیۃ وحرم بغیرھا (۴)، و فی رد المحتار ینبغی ان یدعو فی صلاتہ بدعاء محفوظ، و اما فی غیرھا فینبغی ان یدعو بما یحضرہ۔ (شامی ص۳۵۰، ۳۵۲ ج۱) (۵)اور نماز کے علاوہ خاص دعاء کیلئے سجدہ کرنا اور اس میں دعاء کرنا کہیں منقول نظر سے نہیں گزرا لیکن ظاہراً کچھ حجر بھی نہیں کیونکہ صورت تذلل کی ہے، مگر اس کے عادت بنانا یا سنت سمجھنا درست نہیں۔ کذا فی امداد الفتاوی ص۵۴۰ ج۱ (۶)۔ واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۰-۹-۱۳۹۷ھ.
———————————–
(۴) الدر المختار ج۱ ص۵۲۱، طبع سعید۔
(۵) رد المحتار تحت مطلب فی خلف الوعید و حکم الدعاء بالمغفرۃ للکافر و لجمیع المؤمنین ج۱ ص۵۲۳ طبع سعید۔
(۶) دیکھئے امداد الفتاوی ۱/۵۵۶ سجدۂ دعائ۔
: فتاوی عثمانی جلد 1صفحہ نمبر: 265