اسلام میں فرد کی آزادی کی قانونی حیثیت
The legal status of individual freedom in Islam
الوضع القانوني للحرية الفردية في الإسلام
اسلام میں فرد کی آزادی کی قانونی حیثیت
مولانا سید اسرار الحق سبیلیؔ
اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس میں فرد کی جائز خواہشات، ضروریات، نفسیات اور طبعی تقاضوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامی کا کوئی حکم بھی انسان کی فطری خواہش او رجذبۂ آزادی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کا راستہ بتادیا اور ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوٰہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکّٰہَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰہَا۔ (الشمس: 7۔10)
اور قسم ہے انسان کی جان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا، پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا) اس کو القاء کیا، یقیناً وہ مراد کو پہونچا جس نے اس جان کو پاک کرلیا، اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبادیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر کے اختیار کرنے اور شر سے بچے رہنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ خیر و شر کا نفع و نقصان بیان کردیا، تاکہ وہ اپنی مرضی سے خیر کو اختیار کرے اور شر سے بچے۔ اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد ہے:
وَہَدَیْْنٰہُ النَّجْدَیْْنِ۔ (البلد:10)
اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں راستے (خیر و شر) بتلادیے۔
آئندہ سطور میں واضح کیا جائے گا کہ وہ کون کون سی بنیادی آزادیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں اور اسلام نے اپنی ریاست میں رہنے والوں کو ان کی ضمانت دی ہے۔
(1) مذہب و عقیدہ کی آزادی
اس سلسلہ میں اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں اور یہ اسلام کی خوبی اور کشادہ قلبی کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام نے مذہب و عقیدہ کے معاملہ میں کسی قسم کی تنگ نظری اور جبر کو پسند نہیں کیا ہے اور ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب پر باقی رہنے اور اسے اختیار کرنے کی آزادی دی ہے،
چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔ (البقرۃ: 256)
دین میں کوئی زبردستی نہیں، (کیوں کہ) ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ۔
(یونس:99)
اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، (جب یہ بات ہے) تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں جس سے وہ ایمان ہی لے آئیں۔
فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ. لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِرٍ۔
(الغاشیۃ: 21۔22)
(تو آپ بھی ان کی فکر میں نہ پڑیے) بلکہ صرف نصیحت کردیا کیجیے، کیوں کہ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں۔
(2) عبادت کی آزادی
(یونس:99)
اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، (جب یہ بات ہے) تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں جس سے وہ ایمان ہی لے آئیں۔
(الغاشیۃ: 21۔22)
(تو آپ بھی ان کی فکر میں نہ پڑیے) بلکہ صرف نصیحت کردیا کیجیے، کیوں کہ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں۔
سویت یونین ممالک میں کمیونزم کے عروج کے زمانہ میں عبادت کی اجازت نہیں تھی اور گرجاگھر وغیرہ بند کردیے گئے تھے۔ اسلام نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے عبادت کی آزادی دی ہے اورعبادت گاہوں اور عبادت میں مصروف لوگوں سے تعرض کرنے سے خاص طور پر منع کیا ہے۔ ملک العلماء علامہ کاسانیؒ (م582ھ) لکھتے ہیں:
4202ذا کانوا حضوراً لا یلحقون، وإن لم یقدر المسلمون علی حمل ہولاء ونقلہم إلی دارالاسلام لا یحل قتلہم ویترکون فی دارالحرب، لأن الشرع نہی عن قتلہم۔ 1
جب جنگ میں شروع سے حاضر ہوں، اور مسلمان ان کو دارالاسلام منتقل کرنے پر قادر نہ ہوں تو ان کو قتل کرنا جائز نہیں ہوگا، ان کو دارالحرب میں چھوڑ دیا جائے گا، کیوں کہ شریعت نے ان کو
قتل کرنے سے منع کیا ہے۔
آگے وہ ذمیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما الکنائس والبیع القدیمۃ فلا یتعرض لہا، ولا یہدم شئ منہا … ولو انہدمت کنیسۃ فلہم أن یبنوہا کما کانت، لأن لہذا البناء حکم البقاء، ولہم أن یستبقوہا، فلہم أن یبنوہا۔ 2
بہرحال قدیم کنائس اور بیع (یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہیں) سے تعرض نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کا کوئی حصہ منہدم کیا جائے گا۔ اگر وہ منہدم ہوجائیں تو ان کو پہلے کی طرح بنانے کا حق ہوگا، کیوں کہ یہ تعمیر بقا کے حکم میں ہے اور ان کو باقی رکھنے کا حق ہے، لہٰذا ان کی تعمیر کا بھی حق ہوگا۔
(3) علم حاصل کرنے کی آزادی
اسلام میں ہر فرد کو علم نافع حاصل کرنے کی آزادی ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے اور غیر مسلموں کو مسلمانوں سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلام نے علم کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں برتی ہے۔ یہ تنگی زمانۂ قدیم میں ہندومت اور کلیسائی نظام میں پائی جاتی تھی اور آج کارپوریٹ کلچر نے غریبوں کے لیے اعلیٰ علیم کے دروازے عملاً بند کردیے ہیں۔ اسلام نے علم کے حصول کو آسان اور سستا بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں آیات و احادیث اور اسلامی تاریخ شاہدِ عدل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
4159َأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ۔(التوبۃ:6)
الٰہی سن لے، پھر اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچادیجیے۔ یہ (حکم) اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
صحابی رسول حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
أمرنی رسول اللہ ﷺ أن أتعلم السریانیۃ۔ 3
مجھے رسول اللہ ﷺ نے سُریانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت علیؓ کا قول ہے :
العلم ضآلۃ المؤمن فخذ ولومن المشرکین۔ 4
علم مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ مشرکین سے حاصل ہو۔
ڈاکٹر صباح الدین عبدالرحمنؒ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی و علمی عروج کے زمانہ میں یونان، روم اور یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے اور بغداد، قرطبہ، غرناطہ اور قاہرہ علمی مراکز تھے۔ اہلِ یورپ یہاں کی درس گاہوں میں تعلیم پاتے تھے۔ پوپ سادس نے اپنی تعلیم قرطبہ کی درس گاہ میں پائی تھی۔ 5
(4) تجارت و روز گار کی آزادی
اسلامی مملکت میں نہ صرف ذمی باشندوں کو بلکہ دارالاسلام سے باہر رہنے والے غیرمسلموں کو بھی اجازت لے کر دارالاسلام میں تجارت و روز گار کی آزادی ہے۔ اس دوران ان کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ 6
(5) کھانے پینے اور خرید و فروخت کی آزادی
اسلام نے کھانے پینے کے سلسلہ میں آزادی دی ہے۔ ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق اشیاء خورد و نوش کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِیْلاً إِنَّکُم مُّجْرِمُونَ۔(المرسلات:46)
تم (دنیا میں) تھوڑے دن کھالو اور مزے کرلو، بے شک تم مجرم ہو۔
علام کاسانیؒ لکھتے ہیں:
ویترکون أن یسکنوا فی امصار المسلمین یبیعون ویشترون۔ 7
ذمیوں(جن لوگوںنے اسلامی بالادستی میں پناہ لی ہو) کو آزادی دی جائے گی کہ وہ مسلمانوں کے شہروں میں رہائش اختیار کریں اور خرید و فروخت کریں۔دوسری جگہ لکھتے ہیں:
ولا یُمنعون من إظہار شیئ مما ذکرنا من بیع الخمر والخنزیر والصلیب، وضرب الناقوس فی قریۃ أو موضع لیس من أمصار المسلمین ، ولو کان فیہ عدد کثیر من أہل الاسلام۔ 8
گاؤں میں یا ایسی جگہ جو مسلمانوں کے بڑے شہروں میں سے نہ ہو، وہاں ان کو شراب، خنزیر اور صلیب کی خرید و فروخت اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا، اگرچہ وہاں مسلمانوں کی
بڑی تعداد رہتی ہو۔
بلکہ فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے:
مرّ رجل من أہل الذمۃ بخمر لہ فی سفینۃ فی مثل دجلۃ أو الفرات، فمرّ بذلک فی وسط بغداد، أو مدائن، أو واسط لایمنع من ذلک، وکذلک لو أراد المرور بالخمر فی طریق الأمصار، ولا ممرّ لہم غیر ذلک، فإنہم لایُمنعون عنہ، و ینبغی للإمام أن یبعث معہم أمینا حتی لایتعرّض أحد من المسلمین لہم، وحتی لا یدخلوا ذلک فی مساکن المسلمین المتہمین بشرب ذلک۔ 9
کوئی ذمی دریائے دجلہ یا فرات میں کشتی میں شراب رکھ کر لے جائے اور بغداد، مدائن یا واسط شہر کے درمیان سے گزرے، تو اس کو نہیں روکا جائے گا۔ اسی طرح اگر شراب لے کر بڑے شہروں سے گزرنا چاہے اور ان کے لیے کوئی دوسری گزرگاہ نہ ہو، تو ان کو نہیں روکا جائے گا، اور بہتر ہے کہ امام ان کے ساتھ ایک امانت دار شخص کو کردے، تاکہ کوئی مسلمان ان کو نہ چھیڑے، اور وہ بھی ان مسلمانوں کے گھروں میں شراب نہ لے جاسکیں جو اس کے پینے کے سلسلہ میں متہم ہوں۔
(6) رہنے سہنے کی آزادی
اسلامی مملکت میں غیر مسلم ذمیوں کو آزادی کے ساتھ رہنے سہنے کا حق حاصل ہے۔چناں چہ علامہ ابن عابدین شامیؒ (م 1252ھ) لکھتے ہیں:
… فاشتری بہا اہل الذمۃ دوراً وسکنوا مع المسلمین لم یمنعوا من ذلک، فإنا قبلنا منہم عقد الذمۃ ۔ 10
اہل ذمہ دارالاسلام میں مکانات خرید کر مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگیں، تو انھیں اس سے نہیں روکا جائے گا، کیوں کہ ہم نے ان سے عہدِ ذمہ قبول کیا ہے۔
اور علامہ حصکفیؒ (م 1088ھ) لکھتے ہیں:
وإذا تکاری أہل الذمۃ دورا فیما بین المسلمین یسکنوا فیہا فی المصر جاز۔ 11
اگر اہل ذمہ مسلمانوں کے درمیان شہر میں رہائش کے لیے مکانات کرایہ پر لیں، تو یہ جائز ہے۔
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی جان و مال اسی طرح محفوظ رہتے ہیں جس طرح مسلمانوں کی جان و مال محفوظ رہتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس مسلمان کو قصاصاً قتل کیا جائے گا۔ علامہ برہان الدین مرغینانیؒ (م593ھ) صراحت کرتے ہیں:
ویقتل الحرّ بالحرّ والحرّ بالعبد والمسلم بالذمی۔ 12
آزاد کو آزاد کے بدلہ، آزاد کو غلام کے بدلہ اور مسلم کو ذمی کے بدلہ قتل کیا جائے گا۔(ماخوذ سورہ بقرہ)
(7) آمد و رفت کی آزادی
اسلامی ریاست اپنے تمام شہریوں کو گھومنے پھرنے کی آزادی دینے کی پابند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِن قَبْلُ۔ (الروم: 42)
آپ فرمادیجیے کہ ملک میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ جو لوگ پہلے گزرے، ان کا کیا انجام ہوا؟۔
لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فِیْ الْبِلاَدِ. مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَأْوٰہُمْ جَہَنَّمُ۔ (آل عمران: 196۔197)
تجھ کو ان کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا مغالطہ میں نہ ڈال دے، یہ چند روزہ بہار ہے، پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
(8) نجی/ ذاتی معاملہ کی آزادی
فطری طور پر ہر شخص اپنے خانگی معاملہ میں آزادی چاہتا ہے اور اس میں دخل اندازی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو اس کے ذاتی معاملہ میں آزادی دی ہے۔ قرآن میں کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونے اور جاسوسی اور غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا۔ (النور: 27)
اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو، جب تک کہ اجازت حاصل نہ کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔
وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً۔ (الحجرات:12)
اور سراغ مت لگایا کرو، اور کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔
فقہاء نے ذمیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
وفی التجرید : ولا ینبغی للمسلمین أن ینزلوا علیہم فی منزلہم، ولا یأخذوا شیئا من دورہم وأراضیہم إلا بتملیک من قبلہم، کذا فی التتارخانیۃ۔ 13
’تجرید‘ میں ہے: مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ذمیوں کے گھروں میں قیام کریں اور ان کی طرف سے بغیر مالک بنائے ان کے گھروں اور زمینوں میں سے کچھ حاصل کریں، جیسا کہ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے۔
(9) اظہارِ حق کی آزادی(ایک امتیازی خصوصیت)
فرد کی آزادی میں ایک اہم چیز فکر و خیال اور حق بات کے اظہار کی آزادی ہے، لیکن آج اسی آزادی کا غلط استعمال کرکے اسلام، پیغمبرِ اسلامؐ اور مسلمانوں کے خلاف بہتان تراشی کی جارہی ہے۔ اسلام نے جائز حدود کے اندر انسانوں کو یہ آزادی عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ۔ (الاحزاب:53)
اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے۔
حدیث میں ہے:
أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر۔ 14
ظالم بادشاہ کے سامنے حق و انصاف کی بات کرنا افضل درجہ کا جہاد ہے۔
ایک روایت میں حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی:
ان نقول بالحق أینما کنا، لانخاف فی اللہ لومۃ لائم۔15
ہم جہاں بھی ہوں، حق بات کہیں گے، اللہ کی بات کہنے میں ہم ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کلا! واللہ لتامرنّ بالمعروف ولتنہونّ عن المنکر ولتاخذنّ علی یدی الظالم ولتاطرنّہ علی الحق إطراً و لتقصرنّہ علی الحق قصراً، أو لیضربنّ اللہ بقلوب بعضکم علی بعض، ثم لیلعنّکم کما لعنہم۔ 16
خبردا! اللہ کی قسم، تم ضرور بھلائی کا حکم دو، برائیوں سے روکو، ظالم کے دونوں ہاتھ پکڑ لو، اس کو حق کی طرف موڑدو، اور اس کو حق کی طرف لوٹادو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں کو خلط ملط کردے گا، پھر تم پر لعنت کرے گا، جیسا کہ اس نے تم سے پہلے کے لوگوں پر لعنت کی ہے۔
اسلام میں اظہارِ خیال کی آزادی کی بہترین مثال حضرت عمرؓ اور ایک بڑھیا کا مشہور واقعہ ہے ۔ حضرت عمرؓ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو مہر کم باندھنے کی تلقین کررہے تھے۔ اس پر مجمع میں سے ایک بڑھیا اٹھی اور اس نے امیر المومین کو ٹوکا۔ اس نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : ’’وَآتَیْْتُمْ إِحْدٰہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً‘‘۔ (النساء:20) (اگر تم نے بیوی کو ڈھیر سا مال دے دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو)۔ اور کہا کہ جب اللہ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے تو آپ حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے اپنی بات واپس لے لی اور فرمایا: ’’ایک عورت نے صحیح بات کہی اور مرد نے غلطی کی‘‘۔ 17(یہ وسعت ظرفی ایمان کی علامت ہوتی ہے۔بے ایمان لوگ عمومی طورپر اس کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
البتہ اظہارِ خیال کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو گالی دی جائے، دوسرے مذہب والوں پر طعن و تشنیع کی جائے، دل آزار مضامین اور کارٹون شائع کیے جائیں۔ یہ اظہارِ خیال کی آزادینہیں ہے، بلکہ گالی گلوج، دل آزادی اور جہالت کی آزادی ہے، جو یقیناً مہذب معاشرہ میں ناقابلِ قبول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْْرِ عِلْمٍ کَذَلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ أُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ۔ (الانعام: 108)
اور تم ان کو گالی نہ دو ، جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں، (کیوں کہ) پھر وہ جہالت میں حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔ ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا علم مرغوب بنا رکھا ہے۔
اسلام نے فرد کو جو آزادی دی ہے اس کی قانونی حیثیت کے بعض پہلو سطور بالا میں پیش کیے گئے ہیں۔ مزید تفصیلات سے یہاں تعرض نہیں کیا گیا ہے۔اس کے لیے فقہ، اسلامی قانون اور حقوق کے موضوع پر مبسوط تصانیف کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حواشی و مراجع
1 بدائع الصنائع، 6/65
2 ایضاً، 6/84
3 اخرجہ البخاری فی الأحکام تعلیقاً وأبوداؤد فی العلم
4 التراتیب الاداریۃ للکتانی، 2/348
5 مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب، ص72۔73
6 ملاحظہ کیجیے ہدایہ، 2/585۔587، فتاوی عالم گیری، 2/234۔236
7 بدائع الصنائع، 6/83
8 ایضاً
9 الفتاویٰ الہندیۃ، 2/251
10 ردالمحتار، 6/255
11 الدر المختار، 6/255
12 الہدایہ، 4/562
13 الفتاویٰ الہندیۃ، 2/251
14 سنن ابی داؤد: 4344
15 بخاری: 7199، مسلم: 1709
16 سنن ابوداؤد: 4336، 4337
17 تفسیر ابن کثیر، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2000ء، ص