اسباب بغاوت ہند | سرسید احمد خاں
وہ کیا وجوہات تھیں کہ ہندوستان میں جگہ جگہ بغاوت کی آگ پھیل گئی، اس کتاب کو چھپتے ہی اشاعت سے روک دیا گیا اور پھر یہ کبھی مشتہر نہیں ہوسکی۔
سر سید احمد خاں کا رسالہ “اسبابِ بغاوتِ ہند” کسی مسلمان کی طرف سے لکھا ہوا وہ پہلا سرکاری ڈاکومنٹ ہے جو انگریز نوآبادکار اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بہت دیر تک زیرِ بحث رہا۔ اِس رسالے نے برطانوی راج کے اُس رویے کوتبدیل کر دیا جو 1857ء کی بغاوت میں مسلمانوں کے رول کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا۔ اِس چیز کا اعتراف سبھی معاصر تحریروں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حکمرانوں نے کیا ہے۔
یہ رسالہ کسی ہندوستانی مسلمان کی ایسٹ انڈیا کمپنی دور کے اختتام اور ہندوستان کے براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہوجانے کے ایام کی اہم ترین دستاویز ہے جو واضح کرتا ہے کہ انگریز کی حکمرانی میں وہ کیا خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ہندوستان میں جگہ جگہ بغاوت کی آگ پھیلی۔
یہ رسالہ، بوجوہ، چھپتے ہی اشاعت سے روک دیا گیا اور پھر یہ کبھی مشتہر نہیں ہوسکا۔ پہلی بار یہ رسالہ سرسید کی وفات کے بعد 1901ء میں حالی کی مرتَّب کردہ ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں ضمیمے کے طور پر شامل ہوا اور عوام کی آنکھوں کے سامنے آیا۔
اصل رسالہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اِس کی کتابت میں قیاسی تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ادارہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس رسالے کا اصل عکس پہلی بار پیش کر رہا ہے جو صفوان محمد چوہان نے برٹش لائبریری سے حاصل کیا ہے۔ رسالے کا یہ وہ نسخہ ہے جس کے پروف کی اغلاط سر سید نے خود درست کر رکھی ہیں۔
اِس کتاب میں کئی ایسی نادر چیزیں شامل ہیں جو اُس دور کے پورے تناظر کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، اور اِن میں سے بعض دستاویزات پہلی بار اردو میں ترجمہ کرکے پیش کی جا رہی ہیں۔
کتاب کے انگریزی حصے میں ’’اعلانِ وکٹوریہ‘‘ سمیت بعض نادر چیزوں کے عکس شامل ہیں۔ اِن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرپسند عوام نے ڈاک اور ٹیلیگراف کی سہولیات سے غلط فائدہ اٹھایا، اور منٹگمری کے مشہور جملے ’’الیکٹرک ٹیلیگراف نے انڈیا کو بچایا‘‘ کی وجہ سامنے آتی ہے۔
صفوان محمد چوہان نے رسالے کے اصل متن کے ساتھ اِس کی تفہیم کے لیے بعض ضروری حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اب یہ کتاب کسی تاریخی دستاویز سے کم نہیں! ضرور پڑھیے!
سر سید احمد خاں کا رسالہ “اسبابِ بغاوتِ ہند” کسی مسلمان کی طرف سے لکھا ہوا وہ پہلا سرکاری ڈاکومنٹ ہے جو انگریز نوآبادکار اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بہت دیر تک زیرِ بحث رہا۔ اِس رسالے نے برطانوی راج کے اُس رویے کوتبدیل کر دیا جو 1857ء کی بغاوت میں مسلمانوں کے رول کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا۔ اِس چیز کا اعتراف سبھی معاصر تحریروں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حکمرانوں نے کیا ہے۔
یہ رسالہ کسی ہندوستانی مسلمان کی ایسٹ انڈیا کمپنی دور کے اختتام اور ہندوستان کے براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہوجانے کے ایام کی اہم ترین دستاویز ہے جو واضح کرتا ہے کہ انگریز کی حکمرانی میں وہ کیا خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ہندوستان میں جگہ جگہ بغاوت کی آگ پھیلی۔
یہ رسالہ، بوجوہ، چھپتے ہی اشاعت سے روک دیا گیا اور پھر یہ کبھی مشتہر نہیں ہوسکا۔ پہلی بار یہ رسالہ سرسید کی وفات کے بعد 1901ء میں حالی کی مرتَّب کردہ ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں ضمیمے کے طور پر شامل ہوا اور عوام کی آنکھوں کے سامنے آیا۔
اصل رسالہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اِس کی کتابت میں قیاسی تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ادارہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس رسالے کا اصل عکس پہلی بار پیش کر رہا ہے جو صفوان محمد چوہان نے برٹش لائبریری سے حاصل کیا ہے۔ رسالے کا یہ وہ نسخہ ہے جس کے پروف کی اغلاط سر سید نے خود درست کر رکھی ہیں۔
اِس کتاب میں کئی ایسی نادر چیزیں شامل ہیں جو اُس دور کے پورے تناظر کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، اور اِن میں سے بعض دستاویزات پہلی بار اردو میں ترجمہ کرکے پیش کی جا رہی ہیں۔
کتاب کے انگریزی حصے میں ’’اعلانِ وکٹوریہ‘‘ سمیت بعض نادر چیزوں کے عکس شامل ہیں۔ اِن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرپسند عوام نے ڈاک اور ٹیلیگراف کی سہولیات سے غلط فائدہ اٹھایا، اور منٹگمری کے مشہور جملے ’’الیکٹرک ٹیلیگراف نے انڈیا کو بچایا‘‘ کی وجہ سامنے آتی ہے۔
صفوان محمد چوہان نے رسالے کے اصل متن کے ساتھ اِس کی تفہیم کے لیے بعض ضروری حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اب یہ کتاب کسی تاریخی دستاویز سے کم نہیں! ضرور پڑھیے!
.
📕 اسباب بغاوت ہند
تالیف: سرسید احمد خاں
تالیف: سرسید احمد خاں