ادرک کی اہمیت اور استعمالات
طب نبویﷺ کی روشنی میں
پہلی قسط
ادرک کی اہمیت اور استعمالات
طب نبوی کی روشنی میں
پہلی قسط
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
ادرک کا مربہ۔
۔ادرک۔زنجبیل کا مزاج۔غدی اعصابی ہے۔ چینی لوگ اسے ہزاروں سال سے استعما ل کرتے آرہے ہیںمحرک و مقوی جگر ہے۔گردوں کو تقویت دیتا ہے۔محلل غذا و سوزش عضلات ہے مسکن اعصاب مولد صفراہے مقوی باہ مولد حرارت عزیزی ہے،جالی ،مشتہی،کاسر ریاح،مدر حار،قاتل کرم،دافع تعفن،مقوی جسم ہے۔ ،۔مبہی اثرات رکھتا ہے۔ریاح و درد شکم۔درد سینہ میں مفید ہے ۔
قال: أهدى ملك الروم إلى النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم جرة فيها زنجبيل فأطعم كل إنسان قطعة وأطعمني قطعة۔الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني (1/ 268) لسان المیزان 4/360مجمع الزوائد” (5 /59)
اسی طرح حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ”شہنشاہ روم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ادرک کا ایک بڑا ٹکرا بطورِ تحفہ پیش کیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹکڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان تقسیم کر دیا۔ یہ سوغات مجھے بھی ملی جسے میں نے فوراً کھا لیا۔درج بالاواقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ادرک بڑی فضیلت اور اہمیت رکھتی ہے۔
مختلف زبانوں میں نام
ادرک کو۔ اردو ، ہندی ،کشمیری اور پنجابی میں ادرک، عربی اور فارسی میں زنجبیل ،سنسکرت میں شرنبیر ، ادراکم اور انگریزی میں جنجر کہتے ہیں۔ سوکھی ہوئی ادرک کو سونٹھ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مبارک غذا ہے جس کا ذکر قران مجید اور احادیث مبارکہ میں ہوا ہے ۔ اس طرح ادرک ایسی غذا اور دوا ہے جو قرانی اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نسبت رکھتی ہے ۔قران مجید میں اس کا ذکر سورہ الدھر کی آیت نمبر17 میں ہوا ہے اللہ تبارک تعالی نے جنت میں پائی جانے والی نعمتوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ
وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًا(الدھر17)
اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔
تاریخ انسانی میں ادرک کا استعمال
ادرک ایک قدیم پودا ہے جو گزشتہ 5000 سال سے مختلف کھانوں میں اور طبی حوالوں سے استعمال ہو رہا ہے۔برصغیر ،چین اور یونان کے اطباء اس سے ہزاروں سال سے واقف ہیں ۔یہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ، افریقہ کے گرم علاقوں خصوصا نائجیریا اور سیر الیون لاطینی امریکہ ، کریبین جزائر خصوص جمیکا اور آسٹریلیا میں وسیع پیمانے پر پیدا ہوتا ہے ۔یہ ایسی نبات (herb) ہےجو خشک حالت یعنی سونٹھ کی شکل میں بطور دوا معروف ہےجبکہ تازہ حالت یعنی ادرک کی شکل میں اس کی شہرت بطور مصالحہ کہیں زیاد ہ ہے۔ یہ نہ صرف غذا کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ مختلف امراض کا علاج اور تدارک بھی ہے۔
ادرک کی سر زمین
ادرک کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہےکہ اس کا اصل وطن برصغیر ہے اور یہیں سےیہ عرب اور عربوں کے توسط سے دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلا لیکن کچھ محققین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب سے پہلے چین میں کاشت ہوا تھا ۔ آج یہ دنیا کے تمام حصوں میں پایا جاتا ہے۔
کلونیل عہد میں یہ لاطینی امریکہ ، کریبین جزائر اور نئی دنیا کے دیگر علاقوں میں پہنچا اوربطور غذا اور دوا تیزی سے مقبول ہوا ۔ جمیکا میں یہ وسیع پیمانے پر کاشت ہوتا ہے یہاں پیدا ہونے والاادرک کافی میعاری سمجھا جاتا ہے ۔
ادرک برصغیرمیں ہزاروں سالوں سے غذا کو لذیذ اور خوش ذائقہ بنانے کے لئے بطور مصالحہ استعمال ہورہا ہے اور بطور دوا بھی اس کا استعمال ایورویدک طب میں اتنا ہی قدیم ہے ۔برصغیر کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی ادرک زمانہ قدیم سے خوراک کو لذیذ بنانے او ر علاج کیلئے استعمال میں ہے۔
قدیم یونانی اطباءنے اپنی کتابوں میں کئی جگہ اس کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً حکیم جالینوس نے اسے فالج میں مفید بتایا ہے عرب لوگ اسے بطور استعارہ استعما ل کرتے تھے«
«العَرَبُ تَصِفُ الزَّنْجَبِيلَ بالطِّيبِ»تا۔ج العروس» (29/ 143):
۔مسلمان اطباء مثلا بو علی سینا کے خیال میں یہ قوت باہ کو بڑھاتا ہے ۔چینی طب میں بھی یہ پچھلے 2000 سال سے معروف دوا ہے ۔ روم کے لوگ ادرک کو بہت استعمال کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ادرک بہت قیمتی مصالحہ تصور کی جاتی تھی جب رومن سلطنت کا زوال ہوا تو تاریخ سے ادرک کا نام بھی فراموش ہو گیا لیکن جب یورپ نے اس کو دوبارہ دریافت کیا تو اس کے بعد یہ پھر سے ہر دل عزیز ہو گیا۔