ادراک کی حقیقت
ادراک سےایسا علم حاصل ہوتا ہےجو حواس ِ خمسہ باطنی سے حاصل ہوتا ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی) اسے نطق اور نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں۔ اسی کو مجازاً روح انسانی کہا جاتا ہے۔ دراصل ترقی یافتہ صورت بھی نفس مطلق ہی انسان میں نفس ناطقہ کہلاتی ہے اور ادراک نفس
ناطقہ کی دو قوتوں میں ایک قوت ہے۔ دوسری کو قوت تحریک کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ ایک جوہر بسیط ہے جس کی حکومت انسان کے تمام قویٰ اور اعضائے جسمانیہ پر ہے۔ وہ مدرک عالم ہے اس لئے عرض نہیں ہے کیونکہ کسی عرض کا دوسرے عرض کے ساتھ قیام ایک ایسا امر ہے کہ عقل سلیم اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔وہ مدرک کلیات ہےاس لئے اس کو جسم یا جسمانی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کلی اگر کسی جسم میں قائم ہوتو پھر اس کی کلیت قائم نہیں رہتی اور وہ محدود ہو جاتا ہے۔
انسان کو ایک ایسی خاصیت حاصل ہے جو دیگرموجودات کو حاصل نہیں ہے۔ اس کو نطق کہتے ہیں اس لئے وہ ناطق (Speaker) کہلاتا ہے۔ ناطق سے مراد نطق بالفعل نہیں ہے کیونکہ جو آدمی گونگا ہو گا اس میں نطق بالفعل نہ ہوگا۔ بلکہ نطق سے مراد ادراک علم ومفعولات اور قوت تمیز ہے جس سے جسم انسان میں بالواسطہ قویٰ اور آلات تصرف اور تدبیر عمل میں آتی رہتی ہے لیکن ہم اس کو اپنے کسی احساس سے محسوس نہیں کر سکتے یہی نفس ناطقہ ہے جس سے انسان کو فضیلت اور شرف حاصل ہے اور اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔یہی فضیلت اور شرف جب اپنے کمال پر ہوتا ہے تو مقام نبوت اور جب ختم نبوت ہوتی ہے تو حسن جمال اور حکمت و عقل اپنے انتہا پر ہوتی ہے۔ یہی ادراک ہے جو ادنیٰ شخصیت سے لے کر ختم نبوت تک اپنے اپنے مقام پر نورو معرفت اور علم وحکمت کو سمجھتا ہے، علم و عقل دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ کسی شخص میں عقل زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں علم زیادہ ہوتا ہے۔ہر شخص میں دونوں کا توازن بالکل مشکل ہے۔ صرف نبوت اور خصوصاً ختم نبوت میں علم و عقل کا نہ صرف کمال ہوتا ہے بلکہ انتہائی توازن ہوتا ہے۔ بس اس حقیقت کو لازم کر لیں کہ جو علم ادراک سے حاصل ہوتا ہے، وہ کسی احساس سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے صرف تجربہ ومشاہدہ اور عقل کی لِم و حکمت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ علم و حکمت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ادراک اور نبوت ہیں، جن میں وجدان، الہام، وحی اور علم لدنی حاصل ہوتا ہے۔