اخلاط کی زیادتی کی علامات
اخلاط کی زیادتی کی علامات
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نولاہور
بلغم کی زیادتی کی علامات۔۔۔۔
بدن کی مجموعی رنگت سفید ھوتی ھے
بدن ملائم سرد اور ڈھیلا ڈھالا ھوتاھے
نبض نیچے ھڈی کے ساتھ اور لمس سرد محسوس ھوگا
رطوبات کی زیادتی ھوتی ھے بدن کے مختلف سوراخون سے رطوبات بہنے لگتی ھین یعنی رطوبات چلک کراعضاۓ جسمانی اورمجاری سے باھرآنا شروع ھوجاتے ھین
پیشاب کی کثرت لعاب دھن کا بہنا کھاری اور بھسی ڈکارین آنا
نیند کی زیادتی
جسم بھاری لگنا یا جسم بھاری ھونالیکن اگررطوبات کااخراج ھورھاھو توجسم دبلا پتلا اور جھری دار بن جاتاھے جیسے سوکڑا کا مریض ھوتاھے
خالص بلغمی مزاج مین پیاس کم لگتی ھےاگر صفرا کی آمیزش ھوجاۓ توزیادہ لگتی ھے
سودا کی کثرت۔۔۔
عاشقون کا مزاج ھے جسم سیاھی نیلاھٹ کی طرف مائل
بدن سخت کچھاھوا
خشک نبض صلب مشرف ھوگی معدے کی جلن ترش ڈکارین اشتہاۓ کاذب یعنی جھوٹی بھوک محسوس کرنا
قارورہ کم وسرخ سیاہ غلیظ
جسم پہ بالون کی زیادتی
اس مزاج کے لوگ غورفکر مین ڈوبے رھتے ھین
صفرا کی زیادتی۔۔۔
بدن اور آنکھون کی رنگت زردی مائل
تحریک کی شدت کے مطابق زبان ہرزردی کی تہہ
منہ کاذائقہ تلخ
زبان کھردری
پیاس زیادہ
منہ اور ناک کے نتھنے خشک رھتے ھین
پیشاب زردی مائل شدت تحریک مین تیل کی طرح گاڑھامقدار درمیانی ھوتی ھے نبض درمیان مین اور لمس گرم ھوتاھے
بھوک کی کمی متلی اور کپکپی صفرا کی زیادتی ظاھرکرتی ھے
دموی یعنی خون کی زیادتی۔۔۔
یہ اسلئے لکھنے لگا ھون کہ طب قدیم کے حکماء بھی سمجھ لین مذید سمجھنے کےلئے میرامضمون یا کتاب پی ڈی ایف لوڈ کرلین تشخيص امراض وعلامات
خون کی زیادتی سے انگڑائیان اور جمائیان اوراونگھ آتی ھے
سربوجھل حواس مکدر رھتے ھین
ذھن کند
منہ کاذائقہ شیرین زبان وبدن سرخ ھوتے ھین
ایسے لوگون کوپھوڑے پھنسی نکلتے ھین باآسانی پھٹ جانے والے مقام بہت جلد خون بہہ نکلتا ھے ایسے لوگ اگر خون دیتے رھین اور پچھنے لگواکر حجامہ کروانا بڑا مفید رھتاھے
تشخیص
زبان پر سفیدی ماٸل تہہ ھونا ضعف ہضم کی دلیل ھے …اعصابی تحریک ھے
زبان پر سفید دانے تحریک اعصاب کی علامت ھے
زبان پر سرخ دانے عضلات کی علامات ھے
زبان پر پیلے دانے تحریک غدد کی علامات ھے
سرطان اللسان عضلاتی ھوتا ھے
زبان پرسیاہ نشان سوزش معدہ و امعا یا تسکین کبد کی علامات ھے
زبان پر کٹ پڑ جانا تحریک عضلات کی علامات ھے
زبان پر بھوری زدری تہہ چڑھنا تپ محرقہ معویہ کی علامات ھے
گفتگو کے وقت زبان انکنا لکنت کی علامات ھے
منہ کھولتے ھی بدبو آنا مسوڑوں کی خرابی یا شوگر کی علامات ھے
زبان کا لٹک جانا استر خإ اللسان ھے
زبان متورم ھونا عضلات متورم ھونے کی علامات ھے
دانت پیلے کچلے سگریٹ نوشی پان یا عضلاتی تحریک کی علامات ھے
دانت ہلتے ھون تو اعصابی تحریک ھے
دانت کیلشیم کی کمی سے ٹوٹے ھون تو غدی تحریک ھے
مسوڑوں کی سیاہی یا ان سے خون آنا یا پیپ آنا پاٸیوریا ذبابطیس ہپیاٹاٸٹس سوزش قروح معدہ وامعإ کی علامات ھے
عام صحت مند ادمی گفتگو کرتے کرتے انکتا ھو تو اس کے عضلات اللسان میں تشنج یا پھر وہ رمل فی الکلیہ کا مریض ھے
رات سوتے وقت دانت پیسنا ریاح الفرسہ دیدان امعإ اور امراض الکلیہ کی علامات ھے عموماً عضلاتی تحریک ھوتی ھے
رات سوتے وقت خراٹے آنا گر ہلکی آواز سے ھون تو گہری نیند کی علامات ھے
چکن پاکس ایک وبائی بیماری
چکن پاکس ایک وبائی بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے۔عام طور پرسردیاں ختم ہونے کے بعد چکن پاکس کا وائرس پھیلتا ہے اور ہمارے شہر میں تویہ مہینہ (مارچ) امتحان کا ہوتا ہے لہٰذا بچوں کو اس وائرس سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔یہ بیماری صحیح ہونے میں دو ہفتے لیتی ہے لیکن بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے ہی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔یہ چھالے نماء دانے سب سے پہلے چہرے اوردھڑ پر نمودار ہوتے ہیں پھر پورے جسم پر پھیلتے جاتے ہیں۔یہ تکلیف دہ ضرور ہوتے ہیں لیکن انسانی زندگی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
۔چکن پاکس ویری سیلا زوسٹر وائرس سے پھیلتا ۔
۔یہ وائرس دس سے پندرہ دن تک رہتا ہے۔
۔چکن پاکس وبائی بیماری ہے۔
۔یہ انفیکشن نزلے اور زکام کی طرح پھیلتا ہے۔
۔اس کی تشخیص علامات سے کی جاتی ہے۔
علامات:
دانے ظاہر ہونے سے پہلے:
۔طبیعت اندر سے خراب ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔
۔بخار،جو بڑوں میں زیادہ تیز ہوتا ہے۔
۔پٹھوںمیں درد۔
۔بھوک نہ لگنا ۔
۔ متلی محسوس ہونا ۔
دانے ظاہر ہونے کے بعد:
۔ابتداء میں جسم پر چند دھبے نمودار ہوتے ہیں جودانوں کی شکل اختیار کرکے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔
۔ یہ دانے گچھوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں جو چہرے،ٹانگوں،سینے اور پیٹ پر پھیل جاتے ہیں ۔
۔یہ چھوٹے چھوٹے دانے سرخ اور خارش زدہ ہوتے ہیں ۔
۔اکثر دانے چھالوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔
۔48 گھنٹے گزرنے کے بعد ان چھالوں پر خشکی آنا شروع ہو جاتی ہے اور کھرنڈ بن جاتے ہیں ۔
۔دس دن کے اندر ہی یہ کھرنڈ خود ہی جھڑ جاتے ہیں ۔
ان دس دنوں میں نئے دانے بھی نکلتے رہتے ہیں۔
اس بارے میں جانئے :10عادتیں جوکامیاب لوگ کبھی نہیں اپناتے
دیگرعلامات:
ان کے علاوہ کچھ لوگوں میں دوسری علامات بھی ہوسکتی ہیں۔
اگر مریض میں یہ علامات ظاہر ہوں تو ڈاکٹر کو دکھایا جائے:
۔دانوں یا چھالوں کے اطراف کی جلد سرخ اور تکلیف دہ ہونا۔
۔سانس لینے میں دشواری ہونا۔
علاج:
چکن پاکس بغیر علاج کے ایک یا دو ہفتے میں خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔اس کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن ویکسین کے ذریعے اس سے حفاظت ضرور کی جاسکتی ہے۔
اس مرض میںآپ کا ڈاکٹربخار، درد اور خارش دور کرنے کی دوا دے گا ،ساتھ ہی دوسروں تک اس مرض کو پھیلنے سے بچانے کی بھی ہدایات دے گا۔
بیماری کے دوران زیادہ سے زیادہ لکوئڈ ،خاص طور پر پانی پیا جائے تاکہ ڈی ہائڈریشن سے بچا جاسکے۔
جو بچے پانی زیادہ نہیں پی پاتے انھیں پیڈیا لائٹ بھی دے سکتے ہیں ۔
اگرمنہ میں تکلیف ہو:
اگر دانوں کے نشان منہ میں بھی ہوں تو نمک ،مرچ والے کھانوں سے گریز کرنا چاہئے۔اگر نگلنے میں تکلیف ہو تو مریض کو سوپ دیں لیکن وہ بھی زیادہ گرم نہ ہو ۔
خارش:
دانوں میں خارش بہت ہوتی ہے لیکن پھر بھی کھجانے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ دانوں کے نشان نہ رہ جائیں۔
۔دانوں کو چھلنے سے بچانے کے لئے ناخنوں کو چھوٹا اور صاف رکھیں ۔
۔رات کو سوتے وقت بچے کے ہاتھوں پردستانے پہنادیں تاکہ وہ نیند میں کھجائے تو دانے نہ چھلیں۔
۔مریض کو ڈھیلے کپڑے پہنائیں۔
اس دوران بچے کو اسکول نہ بھیجیں تاکہ دوسرے بچے محفوظ رہ سکیں
جس وقت جسم انسانی میں امراض کافعل و عمل تعمل واقع ہوتاہےچاہے وہ امراض بادیہ ہوں یا امراض مادیہ ،تحاریک درجات ،سوزش اور کیفیات و اثرات کے بعد انکی ظاہری حالت کیا ہوتی ہے
قانون مفرد اعضاء -ایک فطری طریقۂ علاج
قانون مفر د اعضاء کی تعریف
نظریہ مفرد اعضاء کی ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ امراض کی پیدائش مفر اعضاء یعنی گوشت ،پٹھے اور غدد میں ہوتی ہے ۔اور اس کے بعد مرکب اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے ۔ علا ج کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے حیوانی ذرہ خلیہ یا سیل (Cell) سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں بس یہی ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘ہے۔
مجدد طب ؒ نے ایک تہائی صدی تک متواتر شب و روز تحقیق و تجدید پر محنتِ شاقہ صرف کی ۔طب کے بحرِعمیق میں اتر کر نیا گوہر نایاب تلاش کیا ۔جسے ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘کا نام دے کر دنیا ئے طب کی خدمت میںپیش کر دیا ___جو اَب’’ قانون مفرد اعضاء ‘‘کے نام سے موسوم و معروف ہو چکا ہے ۔
قانون مفرد اعضاء کا مقصد
طب قدیم کا علم و فن تشخیص و تجویز کے سلسلے میں کیفیات و امزجہ و اخلاط تک ہی محدود تھا اور ماڈرن میڈیکل سائنس اس ایٹمی دور تک اپنی تدقیقی تحقیقات کے نتیجے میں صرف منافع الاعضاء (PHYSIOLOGY)کا ہی کارنامہ انجام دے سکی ۔ جب کہ مجدد طب ؒ نے کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دیتے ہوئے طب کو اس انداز میں پیش کیا کہ ایک طرف طب قدیم کی اہمیت واضح ہو گئی اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جس طریقہ علاج میں کیفیات امزجہ اور اخلاط کو مد نظر نہیں رکھا جاتا وہ نا صرف غلط بلکہ غیر علمی ،غیر سائنسی اور عطائیانہ علاج ہے ۔کیفیات ، امزجہ اور مفرد اعضاء کی باہمی تطبیق سے طب قدیم میں زندگی پیدا ہوگئی اور ساتھ ہی اعضاء کے افعال کے علاج و درستی کی صورت سامنے آگئی جس کے نتیجے میں تجدید طب کا سلسلہ قائم ہوگیا اور ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘قدیم و جدید جملہ طریقہ ہائے علاج (طبوں ) کے لئے معیار اور کسوٹی بن گیا ہے ۔
قانون مفردا عضاء کی تشریح :
نظریہ مفرد اعضاء میں حیوانی ذرہ (CELL)کو جسم کی بنیاد اول (فرسٹ یونٹ ) قرار دینے کے بعد کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دے کر ان کے تحت امراض و علامات کی ماہیت و حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
ماڈرن میڈیکل سائنس (فرنگی طب )نے بھی جسم انسانی کی اصل بنیاد پہ چار انسجہ(TISSUES)تسلیم کئے ہیں ۔جن کو
اعصابی انسجہ (NERVOUS TISSUES)
عضلاتی انسجہ(MUSCULAR TISSUES)
قشری انسجہ (EPITHELIAL TISSUES)
الحاقی انسجہ (CONNECTIVE TISSUES)کہتے ہیں ۔
مجدد طب و بانی نظریہ مفرد اعضاء حضرت صابر ملتانی ؒ نے ان چاروں انسجہ کو چاروں اخلاط سے تطبیق دے دی ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء میں مفردا عضاء اور اخلاط ایک ہی چیز ہیں یا بالفاظ دیگر مفرد اعضاء مجسم اخلاط ہیں ۔خلیات یا حیوانی ذرات (CELL) سے انسجہ TISSUES) ، انسجہ سے مفرد اعضاء (SIMPLE ORGANS) اور مفرد اعضاء سے مرکب اعضاء (ComPOUND ORGANS) بنتے ہیں ۔ غرضیکہ خلیہ ہی سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے اور مختلف قسم کے خلیات کے ملاپ سے جسم کی تکمیل ہوتی ہے ۔ گویا اناٹومی (ANOTOMY)کے پہاڑوں کو قانون مفرد اعضاء کے ریڈار نے ڈھانچہ دماغ ،جگر اور قلب کے روپ میں دکھا کر دنیائے طب کی شرح صدر کردی ہے ۔ قدرت نے اعضاء کی ترتیب و ترکیب یوں رکھی ہے کہ
’’اعصاب ‘‘ اوپر رکھے ہیں اور ہر قسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔
’’غدد‘‘ کو درمیان میں رکھا ہے اور غذا کی ترسیل ان کے ذمے ہے۔
’’عضلات ‘‘ سب سے نیچے (اندر) رکھے ہیں اور تمام قسم کی حرکات ان سے متعلقہ ہیں ۔
بس یہی طبعی افعال سر انجام دیتے ہیں ۔اور نظریہ مفرد اعضاء کے مطابق اعضائے رئیسہ دل ،دماغ اور جگر حیاتی اعضاء (LIFE ORGANS) ہیں جو کہ بالترتیب عضلات ، اعصاب اور غدد کے مراکز ہیں ۔ ان کے افعال میں افراط ، تفریط اور ضعف سے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔اور انہیں مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے ایک حیوانی ذرہ (CELL)سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوکر صحت قائم اور ’’تن‘‘درست ہوجاتا ہے ۔ ’’تن درستی ‘‘ ہی طب کا مطلوب و مقصود ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء کا تخلیقی اصول
یہ نظریہ فطرت کا ایک اصول ہے جو مادہ اور جوہر سے ماخذ ہے ۔’’یعنی جوہر سے مادہ پیدا ہوتا ہے ‘‘گویا مادہ کی اصل جوہر ہے اور ہر چیز اپنی اصل کی طرف راجع ہوتی ہے ___’’کل شیء یرجع اصلہ ‘‘ ۔
اس لئے جوہر و مادہ اپنے افعال و اثرات کی حیثیت سے یکساں یعنی ایک جیسے خواص و فوائد رکھتے ہیں ۔مراحل کے لحاظ سے جو ہر مادہ ،مادہ سے عنصر ،عنصر سے خلط ،خلط سے مفرد عضو اور مفرد اعضاء کے مجموعے سے جسم ترکیپ پاتا ہے ۔ گویا جوہر مجسم ہو کر مادہ بن جاتا ہے جب مادہ میں تخصیص ہوتی ہے تو وہ عنصر بن جاتا ہے اور عناصر محلول بن جاتے ہیں تو اخلاط پیدا ہوتی ہیں اور اخلاط مجسم ہو کر مفرد اعضاء بن جاتے ہیں یہی مفرد اعضاء علم الابدان اور فن طب کی بنیاد ہیں ۔
محرکاتِ زندگی
جسم میں اعضائے کا کنٹرول اعضائے رئیسہ ___دل، دماغ اور جگر ___ کے پاس ہے ۔
اگر جسم میں رطو بت زیا دہ ہوگی تَو وہ اعصاب کو تیز کر دے گی ۔ اگرحرارت زیا دہ ہو گی تَو وہ غدد کو تیز کر دے گی ۔ اسی طرح اگر ہوا(ریاح) کی زیادتی ہو گی تَو وہ عضلات کے فعل کو تیز کر دے گی۔
اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ :
مرطوب اغذیہ اعصاب میں تقویت پیدا کر تی ہیں ۔ گرم اغذیہ غدد کو طا قت دیتی ہیں ۔ خشک اغذیہ مقویٔ عضلات ہیں ۔
یا دوسری لفظوں میں :
اگر جسم میں رطو بات بڑھ جا ئیں تَو اعصاب میں تحریک بڑھے گی ۔ حرار ت بڑھ جا ئے تَو غدد و جگر میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔ خشکی و ریاح کا غلبہ ہو تَو عضلا ت میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔
اس کے بر عکس:
اعصاب کے فعل میںتیزی سے رطو بات بڑھ جا تی ہیں ۔ غدد کے فعل میں تیزی سے حرارت بڑھ جا تی ہے ۔ عضلا ت کے فعل میں تیزی سے خشونت و ریاح بڑھ جا تے ہیں ۔
گو یا اعضائے رئیسہ __ رطو بت ،حرارت اورہوا __ لازم وملزوم ہیں اوریہی تینوں فطری اجزاء ہیں ، جو کا ئنات میں با رش ، آندھی اور گر می کی صُورت میں نظر آ تے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ محرکاتِ زندگی صرف تین ہیں :
ہوا ، آگ ، پانی یعنی ریاح ، حرارت ، رطوبت
ریاح (ہوا) محرکِ عضلا ت ، حرارت محرکِ غدد اور رطوبت محرکِ اعصاب ہے ۔
کسی طب کے اصولی ، با قاعدہ ا ور فطری ہو نے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا وی دونوں صورتیں پا ئی جائیں۔ قانون مفرد اعضا ء کا یہی کمال ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا ری صورتوں کے ساتھ ساتھ کائنات کے ارکان و امزجہ اور قویٰ و ارواح کی تمام صورتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں ۔ گو یا زندگی اور کائنات کے ذروں کو ایک دوسرے میں سمو دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر کا ئنات کا ذرہ بھی حرکت کر تا ہے تَو زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے ۔ اگر زندگی کے ذرے میں حرکت پیداہو تَو کائنات تک کو متا ثر کر تا ہے ۔ کا ئنات میں پا ئی جا نے والی تمام اشیا ء کے مزاج میں دودو کیفیات پا ئی جا تی ہیںجیسے کو ئی گرم خشک ، کو ئی گرم تر اور کو ئی خشک سردوغیرہ ۔ یہی کیفیات موسم کی صورت میں دُنیا بھر کی اغذیہ ، ادویہ اور دیگر اشیاء کی نمودکا با عث بنتی ہیں ۔
نباتات انسان و حیوان کی بہترین خوراک ہیں ۔ بعض نباتا ت اگر چہ انسان کی خوراک نہیں ، لیکن یا تَو وہ ادویہ کا روپ دھا ر لیتی ہیں یا پھر حیوانات کی غذا بنتی ہیں ، پھر یہ حیوانات انسان کی غذا بنتے ہیں ۔ غرضیکہ اسی آب و ہوا کے عمل دخل سے یہ انواع و اقسام کی اغذیہ و ادویہ حاصل ہو تی ہیں ۔یہی اغذیہ نظامِ انہضام سے گزر کر خون کا روپ دھا ر لیتی ہیں ۔ ثابت ہوا کہ آب و ہوا کیفیات کامجموعہ ہے ۔ انسانی مزاج بھی کیفیات ہی کا مجموعہ ہے ۔ مظاہرِ قدرت کی روشنی میں سال بھر کے مہینوں کی موسمی تبدیلیوں کا گیا رہ (۱۱) سالہ ڈیٹا لے کر اس کا اوسط نکالا گیا، جس سے موسم کی سالانہ تبدیلیوں کا نقشہ کھل کر سامنے آگیا ۔ قدرت موسم کی دونوں کیفیتوں کو ایک دم نہیں بدلتی بلکہ گرمی خشکی حد سے تجا وز کر جا ئے تَو بر سات کے ذریعے اسے گرمی تری میں بدل دیا جا تا ہے ۔
جو نفس میں ہے ، وہی آفاق میں ہے کی مسلمہ حقیقت کے تحت انسانی جسم الوجود کا کو ئی موسم حد سے تجاوز کر تا ہے تَو امراض پیدا ہو تی ہیں ۔ فطرت کے اس قانون پر غور کر نے سے درس ملتا ہے کہ جسم کا جو مزاج حد سے تجا وز کر گیا ہے ، اس کی ایک کیفیت بدل دو یعنی اگر مزاج گرم خشک ہے تَو اسے گرم تَر کر دو ، جسم کے تمام دُکھ دُور ہو جا ئیں گے ۔ اس طرح جسم الوجود کے مزاج کو بھی ہم موسم کا نام دے سکتے ہیں۔جیسے فروری کا موسم خشک سرد ہو تا ہے ، اسی لئے اس ماہ میں لوگ خشک سرد کیفیات سے پیدا ہونے والی امراض کا شکا ر ہو تے ہیں ۔ مثلاً انسانی جلد کا خشکی سردی سے پھٹنا ، خصوصاً چہرہ ، ہا تھ ، تشقق الشفتین ، پا ؤں کی ایڑیاں پھٹنا ، ضیق النفس وغیرہ ۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ایسا کچھ ان لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے ، جس کے جسم کا اندرونی موسم بھی عضلاتی اعصابی یعنی خشک سرد ہو تا ہے ۔
امراض و علا ما ت کا فرق
اعضاء کے افعال میں بگاڑ کا نام مرض ہے ۔ جسمِ انسانی میں جو اعضاء اپنے افعال صحیح انجام نہیں دے رہے ، ان سے جسمِ انسانی کی طرف جو صورتیں دلا لت کر تی ہیں ، بس وہی علا ما ت ہیں ۔ مثلاًوجع المعدہ کو مرض قرار دینا غلط ہے ۔ مرض عضلاتی سوزش ہے ، اور علامت وجع المعدہ ۔
امراض صرف اعصاب و غدد و عضلات میں تحریک و تیزی اور سوزش و ورم کا نام ہے ۔ اس کو زیادہ وسعت دی جا ئے تَو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے ، امراض مفرد اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف کا نام ہے ، با قی سب علامات ہیں ۔
تشخیص
قانون مفرد اعضاء میں تشخیص کے لیے اعصاب ، غدد اور عضلات کے آپسی تعلقات سے چھ تحاریک تحقیق کی گئی ہیں:
۱۔ اعصابی عضلاتی ۲۔ عضلا تی اعصابی
۳۔ عضلا تی غدی ۴۔ غدی عضلاتی
۵۔ غدی اعصابی ۶۔ اعصابی غدی
جسمِ انسانی کی تقسیم بھی چھ حصوں میں کر دی گئی ہے :
ہر چھ تحاریک کی علامت کو سر سے لے کر پاؤں تک نکھیڑ کر بیان کر دیا گیا ہے ۔ علامات کی یہ تقسیم امراض کی تشخیص کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
قانون مفرد اعضاء میں ہر تحریک کی نبض مقرر ہے :معالج بڑی آسانی سے چھ قسم کی نبض پر دسترس و عبور حاصل کر لیتا ہے۔ جس سے نبض دیکھ کر امراض کا بیان کر دینا اور تفصیلا ت کا ظا ہر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
قارورہ کے رنگ ، مقدار ، قوام اور بُو کو مدِ نظر رکھ کرتشخیص کا آسان طریقہ بیان کر دیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ علم و فنِ طب میں قارورہ سے تشخیص کو مفرد اعضاء کے تحت پہلی با رقانون مفرد اعضاء نے بیان کیا ہے ۔
سال بھر کے موسموں کی فطری تقسیم اور پھر ان سے پیدا ہو نے والی امراض کی نشاندہی قانون مفرد اعضاء کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔
ہر مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہو تے ہیں ، ان کی جُدا جُدا صورتیں تحقیق کی گئی ہیں ۔ ہر صورت کی علا ما ت بھی جُدا جُدا ہیں ۔ فوراً ٰیہ پتہ چل جا تا ہے کہ اس عضو کا کو نسا حصہ بیما ر ہے اور اس کا علاج آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔
انا ٹمی تشریح الابدان کا نام ہے اور پتھا لو جی کا مطلب یہ ہے کہ ایسا علم جو اعضاء کے افعال میں رونما ہو نے والے تغیّر و تبدّل اور کمی و بیشی کو بیان کرے ۔
ماڈرن میڈیکل سائنس میں تشریح الا بدان کی لمبی چوڑی تشریحات کے با وجود تشخیص و علاج میں سر ، آنکھ ، ناک ، کان ، گلا اور منہ الغرض سر سے لے کر پا ؤں تک کے تمام اعضاء کا جو سلسلہ ہے ، ان سب کو ایک ہی قسم کے ٹھوس اعضاء سمجھ لیا جا تا ہے جبکہ اناٹمی اور فزیالوجی میں رگ ، پٹھہ ، ریشہ ، غشاء اور حجاب کوجُدا جُدا بیان کیا جا تا ہے لیکن ماہیتِ امراض (پتھالوجی) اور علاج الامراض میں پورے کو پو رے عضو کو مدِ نظر رکھا جا تا ہے ۔
پیٹ میں نفخ ہو یا قے ، جو ع البقر ہو یا جو ع الکلب ، تبخیر ہو یا ہچکی ___ بس یہی کہاجا ئے گاکہ پیٹ میں خرابی ہے ۔ ان علامات میں اعضائے غذائیہ کی شاذ ہی تشخیص کی جا ئے گی ۔ اور اگر کسی ’’روشن دماغ‘‘ اہلِ فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ و امعاء ، جگر و طحال اور لبلبہ وغیرہ کی تشخیص کر بھی لی تَو اس کو بڑا کمال خیال کیا جا ئے گا لیکن اس حقیقت کی طرف کبھی خیال نہیں جا ئے گا کہ معدہ و امعاء وغیرہ خود مرکب اعضاء ہیں اور ہر ایک عضو اعصاب ، غدد ، عضلا ت اور الحاقی مادہ سے مل کر بنا ہوا ہے ۔ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علا ما ت مختلف اور جُدا جُدا ہیں مگر ’’فلسفیانِ علاج‘‘اور ’’ماہرینِ تشخیص‘‘ کلی عضو کو سامنے رکھ کر تشخیص و علاج کا حکم لگا رہے ہیں ۔
فاعلم کہ معدہ و امعاء کے اعصاب کی تیزی و تحریک سے اسہال ، غدد کی تیزی سے پیچش اور عضلات کی تیزی سے قبض رُونما ہو گی ۔ پھر تینوں کو ایک ہی عضو سے منسوب و موسوم کر نا یا مرض تشخیص کر نا کہاں کی حکمت ہے ؟
قانون مفرد اعضاء میں امراض کی تقسیم بالاعضاء بیان کی گئی ہے ۔ اسی طرح علاج میں مفرد اعضاء کو پیشِ نظر رکھنا صرف اور صرف مجددِ طب صابر ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی تحقیقِ جدید اور عالمگیر کا رنامہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا فا ئدہ یہ ہے کہ مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہو تے ہیں ، ان کی جُدا جُدا صورتیں سامنے آجا تی ہیں ۔ اس سے فوراً پتہ چل جا تا ہے کہ اس عضو کا کو نسا حصہ بیما ر ہے ۔ اس نشاندہی سے علاج با آسانی اور یقینی کیا جا سکتا ہے ۔
اصول علاج
جسم میں کیفیات ،امزجہ ،اخلاط اور کیمیائی تبدیلیاں مفرد اعضاء کو متاثر کرتی ہیں اور ان کے افعال و اعمال کے غیر متوازن ہوجانے کا نام مرض ہے ۔ اس عدم توازن کو متوازن کردینے یا اعتدال پرلانے کا نام شفا ہے ۔اور جن طرائق و تدابیر سے یہ توازن قائم کیا جاتا ہے اس حکمت عملی کا نام علاج ہے اور یہی ’’وزنوا بالقسطاس المستقیم ‘‘کی عملی تفسیر ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء کا کمال یہ ہے کہ اس میں کیفیات ،امزجہ ،اخلاط و اعضاء اور ان کے افعال و اثرات اور امراض و علامات کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرودیا ہے۔مقامات جسم ،قارورہ و نبض کو امراض و علامات پر منطبق کر کے تشخیص و علاج میں آسانی یقینی اور بے خطا صورتیں پیدا کردی ہیں ۔
اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ
علمِ طب :
معدوم تھا بقراط نے ایجاد کیا
مردہ تھا جالینوس نے زندہ کیا
متفرق تھا رازی نے جمع کیا
ناقص تھا بوعلی سینا نے مکمل کیا
غیر منطبق تھا مجدد طب صابر ملتانی نے منطبق کیا
ظنی تھا حکیم انقلاب صابر ملتانی نے یقینی بنا دیا
اگر کوئی پوچھے ’’کیسے؟ ‘‘ تَو جواب حاضر ہے ـ:
مفرد اعضاء کی ارکان سے تطبیق
مفرد اعضاء کی کیفیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی مزاج سے تطبیق
مفرد اعضاء کی اخلاط سے تطبیق
مفرد اعضاء کی خلیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی اعضائے رئیسہ سے تطبیق
مفرد اعضاء کی ارواح سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قویٰ سے تطبیق
مفرد اعضاء کی افعال سے تطبیق
مفرد اعضاء کی غذا سے تطبیق
مفرد اعضاء کی دوا سے تطبیق
مفرد اعضاء کی علامات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی امراض سے تطبیق
مفرد اعضاء کی علاج سے تطبیق
مفرد اعضاء کی فلکیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی موسم سے تطبیق
مفرد اعضاء کی نفسیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قوام خون سے تطبیق
مفرد اعضاء کی دوران خون سے تطبیق
مفرد اعضاء کی نبض سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قارورہ سے تطبیق
غرضیکہ مظاہر قدرت کا فکر سلیم کی فائیکرو سکوپ میں مشاہدہ کیا اور پھر قوت مدافعت بدن (AMUNITIES)کا تعلق اعضاء سے اور قوت مدبرہ بدن (VITAL FORCE)کا تعلق خون سے قائم کر کے ان دونوں قوتوں کی آپس میں معاونت و مماثلت اور موازنت سے عضوی اور دموی نظامات بدن میں تطبیق پیدا کردی ہے ۔ قوت مدبرہ عالم اور قوت مدبرہ بدن کو آپس میں تطبیق ۔ اسی طرح قوت مدافعت عالم اور قوت مدافعت بدن کے نظامات قدرت میں فطرت کی جلوہ نمائی دکھلا کر فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا کا صراط مستقیم دکھا دیا ہے ۔سچ پوچھو تو یہی طب نبوی اور طب اسلامی کا صراط مستقیم ہے جو کہ مختلف طریقہ ہائے علاج کی بھٹکی ہوئی طبی دنیا کو دکھلا ،بتلا اور سمجھا دیا ہے ۔ یہی علم الابدان اور فن طب کی معراج ہے ۔
اب جو معالج اس فطری طبی صراط مستقیم کو اپنا لے گا وقت کا کامیاب ترین معالج بن کر ابھرے گا اور دست شفا سے آراستہ و پیراستہ ہو کر طبی دنیا پر چھا جائے گا ۔
اصحاب بصیرت ،دلِ بینا رکھنے والو!
ذرا غوار کرو کہ اگریہ فطری تطبیق نہیں تو اور کیا ہے کہ :
پانی یعنی رطوبت کو ہوا خشک کر دیتی ہے ۔ہوا کو آگ (حرارت )گرم کر دیتی ہے اور حرارت کو پانی یعنی رطوبت سرد کر دیتی ہیں یہ فضائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
رطوبات سردی میں بدل جاتی ہیں ،سردی خشکی میں بدل جاتی ہے ، خشکی گرمی میں بدل جاتی ہے اور گرمی رطوبت میں بدل جاتی۔یہ موسمی اعمال کا فطری نظام عمل ہے ۔
بلغم سودا میں بدل جاتی ہے ،ریاح صفراء میں بدل جاتی ہے اور صفرا بلغم میں بدل جاتا ہے ۔یہ بدن کے عضوی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
جمادات نباتات کی غذا بنتے ہیں ،نباتات حیوانات کی غذا بنتے ہیں، اورحیوانات انسان کی غذا بنتے ہیں ۔ پھریہ سب جب اپنے انجام کو پہنچتے ہیں تو جمادات کی غذا بن جاتے ہیں ۔یہ غذائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
اسی طرح الکلیز کو ایسڈز نیوٹرل کر دیتے ہیں ،ایسڈز کو سالٹس نیوٹرل کردیتے ہیں اور سالٹس کو الکلیزنیوٹرل کر دیتی ہے یہ کیمیائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
کیا دنیا کے کسی طبی سائنس دان نے قانون فطرت کی اس طرح تشریح کی ہے ، جس طرح کہ نظریہ مفرد اعضاء نے کی؟___طبی دنیا اس کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے !
مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضاء (SIMPLE ORGANS THEORY)عین فطری (ABSOLUTELY NATURAL) اور قانون قدرت (LAW OF NATURE)سے مطابقت و موافقت رکھتا ہے ۔قانون مفرد اعضاء کے تحت آپؒ نے نہ صرف جدید تقسیم امراض اور ماہیت امراض پیش کی بلکہ جدید تشخیص اور منطقی (LOGICAL)علاج بھی سامنے لائے ۔لہٰذا بلا خوف تردید تنقید یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریہ مفرد اعضاء ایک ایسی تحقیق ہے کہ جس کا علم نہ یورپ و امریکہ کو ہے اور نہ روس ،چین ،جاپان و جرمنی اس سے واقف ہیں ۔بلکہ فن طب میں یہ ایک عظیم الشان اور فقید المثال انقلاب ہے اور دنیائے طب جلد ہی سر تسلیم خم کر لے گی کہ صحیح طریقہ و فلسفہ علاج صرف اور صرف قانون مفرد اعضاء ہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب مجدد طب کی تحقیقات کا شہرہ اقوام عالم کے طبّی حلقوں میں تہلکہ مچا دے گا اور انشاء اللہ نظریہ مفرد اعضاء قانون مفرد اعضاء کی صورت میں تمام طریقہ ہائے علاج کی ایک کسوٹی بن کر فن طب کا امام بن جائے گا بلکہ اس سے دیگر علوم میں بھی راہنمائی حاصل کی جائے گی ۔
اب ہمارا فرض ہے کہ مجدد طب کی تحقیقات پر ایمانداری سے غور و فکر کریں ان کے جلائے ہوئے فانوس تحقیق و تجدید کے نور سے طبی دنیا کو منور کردیں ۔اس حقیقت کو کون جھٹلانے کی جسارت کر سکتا ہے کہ قدیم اور سابقہ علم العلاج کی دنیا میں اس نظریے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ مجدد طب کا طبع زاد اور ذاتی تحقیق و محنت شاقہ کا ثمر اور صحیح معنوں میں جدید نظریہ ہے ۔ ماشاء اللہ
اس میں حیاتی ذرہ (cell)کا بھی دل و دماغ اور جگر چیرتے ہوئے اس کے ایٹمی اثرات تک پہنچ کر انرجی پاور اور فورس کا پتہ چلایا جاتا ہے گویا نظریہ مفرد اعضاء ایٹمی دور کی مکمل تصویر ہے اس سے زیادہ جدید اور جامع قانون طب ، دقیق تشخیص سسٹومیٹک ،تقسیم امراض اور تجویز علاج نہ صرف بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔
حقیقت حال
وہ دن دور نہیں جب طب اسلامی (قانون مفرد اعضاء ) کا سکہ تمام عالم میں چھا جائے گا اور عیار فرنگی طب جن ہتھکنڈوں ، چالاکیوں ،مکاریوں اور عیاریوں سے تیزی کے ساتھ دنیا پر چھا گئی تھی اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ فرنگیوں کی طرح فرنگستان بھاگ جائے گی یا طب اسلامی کی خادمہ بن کر حراجوں کی طرح زخموں کی صفائی اور مرہم پٹی کرتی رہے گی ۔
انشاء اللہ
جمہور اطباء جانتے ہیں کہ ماضی میں طب کی ڈوبتی ہوئی نیا کو سہارا کس نے دیا تھا جب فرنگی طب کو شک کی نظر سے دیکھنا جہالت سمجھ لیا گیا ،جب اطباء کی اکثریت نے فرنگی طب کی فوقیت کو تسلیم کرلیا اور طب قدیم کی تجدید فرنگی طب کے مطابق کر کے اس کو فنا کرنے پر تل گئے ۔طب قدیم کے لئے یہ بہت نازک اور خطرناک موڑ تھا ۔
ذرا غور کریں
یہ پراپیگنڈہ زوروں پر تھا کہ فرنگی طب علمی ،اصولی ،سائنسی ،اور باقاعدہ ہے ۔ انگریزی دوائیں دیسی دواؤں سے افضل و اعلیٰ ہیں۔اس وقت یہ بر سر عام کہا جانے لگا کہ طب قدیم مکمل طریق علاج نہیں ہے فرنگی ڈاکٹر طب قدیم کو وحشی ، جنگلی اور غیر علمی ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا ۔جب یہ مان لیا گیا کہ طب قدیم کو جب تک طب جدید کے مطابق نہیں کر دیا جاتا ،اس ترقی یافتہ دور میں کامیابی ناممکن ہے۔
جس وقت فرنگی طریقہ علاج کو تمام طبوں کی سرپرستی سونپنے کی سازشیں ہورہی تھیں_جب فرنگی طب نے اپنی غلط اور غیر علمی (UN SCIENTIFIC) تحقیقات کا تعفن پھیلا رکھا تھا __ فرنگی طب نے جب ہمارے وسائل پر قبضہ کما کر ہماری طبی دنیا کا مالک بننا چاہا __ جب فرنگی مکار نے رجسٹریشن کے کلہاڑے سے طب اسلامی اور یونانی کو قتل کرنیکا منصوبہ بنایا __ جب لوگ کفن لئے طب قدیم کو دفن کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے ___ان کسمپرسی کے حالات میں نیم مردہ طب قدیم بے کسی اور بے بسی کے عالم میں تڑپ رہی تھی ___بے یارو مدد گار نوحہ کناں اپنے مسیحا کو پکار رہی تھی کہ مجھ پر سکوت مرگ طاری ہے کہ کوئی ماں کا لال ہے جو اپنے خون جگر سے میری آبیاری کرے ۔
طب قدیم کی اس فریاد پر ایک مرد آہن ،قانون فطرت سے آراستہ و پیراستہ عزم و استقلال کا پیکر ،فتح و نصرت کا نقیب حاضر خدمت ہو کر بولا:
میں تیرا خادم ہوں تیری خدمت کو سعادت سمجھوں گا
میں تیرا مالی ہوں تیری جڑوں کو کبھی خشک نہ ہونے دوں گا
میں تیرا عَلم بردار ہوں تیرا عَلم سدا بلند رکھوں گا
دنیائے طب جانتی ہے کہ وہ مرد مجاہد کون تھا ؟
یہ مرد مجاہد داعی حق دوست محمد صابر ملتانی ؒ تھا ،جس کو طبی دنیا اب مجدد طب اور حکیم انقلاب کے نام سے یاد کرتی ہے ۔کوئی انہیں ابن سینائے وقت ،کوئی لقمان حکمت ،کوئی مسیحِ طب ،کوئی محقق طب ،کوئی مجددِ طب ،کوئی دانائے طب، کوئی استاذالحکماء ،اور فخر الاطباء کا خطاب دیتا ہے اور کوئی انہیں طب کا بے تاج بادشاہ کہتا ہے ۔ انہوں نے طب اسلامی کو اپنے خون جگر سے سینچا ۔طب نے بھی اپنے محسن کو ہر لقب سے ملقب کر کے تاریخِ طب میں ممتاز کردیا ۔
عطائے اِلٰہی اور عنایت ربانی نے ان کو رموز حکمت اور دست شفا عطا فرما کر عنایات کی حد کردی ۔عنایات کی وہ حد جس کی کوئی حد نہیں ! ماشاء اللہ
یہ مردِ مجاہد دنیائے طب پر یہ واضح کرنے کے لئے میدان طب میں کودا کہ طب اسلامی مغربی طب سے برتر و اعلیٰ اور قانون فطرت پر قائم ہے ۔فرنگی طب غلط اور عطایانہ ہے۔
آپؒ نے چیلنج کیا کہ فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے ۔کسی میں ہمت ہے تو سامنے آئے اور اپنی حقانیت ثابت کرے مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی آپ نے عملی طور پر ثابت کردکھلایا کہ تحقیق و تدقیق اور ریسرچ صرف یورپ ،امریکہ اور چین ہی کا حق نہیں بلکہ ہر قوم کا حق ہے ۔
آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ تسلیم کرلینا کہ فرنگی سائنس جس سچائی اور حقیقت کو نہ پرکھے اور اس پر اپنی مہر ثبت نہ کرے وہ سائنس نہیں ہے ،سراسر غلط ہے ۔ بلکہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ جو علم وسائنس قرآن حکیم و حدیث شریف کے مطابق نہیں وہ غلط اور نامکمل ہے۔
آپ نے دعوتِ تسلیم حق دیتے ہوئے جب پہلی بار فرمایا کہ فرنگی طب نہ صرف غلط ہے بلکہ غیر علمی ہے تو عوام و خواص ،اطباء اور ڈاکٹروں نے ان کا مذاق اڑایا ، نفرت اور حیرت سے ان کی طرف دیکھا ۔جب آپ نے ’’فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے ‘‘شائع کی اور چیلنج بھی کیا تو کسی فرنگی ڈاکٹر سے جواب نہ بن پڑا بلکہ حیرت اور نفرت کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
فتح ونصرت قانون قدرت اور فطرت کی ہوتی ہے جو لوگ ماڈرن میڈیکل سائنس کا نام سن کر گھبرا جاتے تھے اب ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف بات کر سکتے ہیں بلکہ غلط اور عطایانہ علاج پر تنقید بھی کرسکتے ہیں ۔
آپ نے پے در پے تقریباً ۱۹ کتب تصنیف فرمائیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔ہر ایک کتاب تحقیقاتی علوم سے مالامال ہے۔حکمت اور فن طب کے ایسے ایسے رموز منصہء شہود پر لائے گئے جن سے ابھی تک اقوام عالم کے طبی سائنس دان بے خبر تھے ۔یہ کتب علوم کا بحر بیکراں ہیں جن سے دنیائے طب ہمیشہ سیراب ہوتی رہے گی ۔
انشاء اللہ القوی العزیز
خلاصہ:
مفرد اعضاء میں تحریک، تحلیل اور تسکین۔شکلی خاکہ تسکین تحلیل تحریک
1-تحریک اسکی حالت
غذا ،خلط کی زیارتی اور عمل تکسید کی کمی مفرد عضو میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ عمل تکسید کی کمی سے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس (خشکی) رکنا شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مفرد عضو سکڑتا ہے۔
2_تحلیل اور اسکی حالت
مفرد عضو میں غذا کی کمی اور عمل تکسید کی زیادتی مفرد عضو میں تحلیل پیدا کرتی ہے عمل تکسید کی زیادتی سے مفرد عضو میں اکسیجن(گرمی)
بڑھ جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مفرد عضو میں تحلیل کا عمل بوجہ گرمی شروع ہوتا ہے۔
3_تسکین اور اسکی حالت
مفرد عضو میں غذا (خلط) اور عمل تکسید دونوں کی کمی مفرد عضو میں تسکین پیدا کرتی ہے دونوں کی کمی سے گرمی خشکی کم ہو کر مفرد عضو میں سردی غالب آ جاتی ہے۔ اور سردی سے تسکین والے مقام پر پانی پیدا ہوتا ہے۔(ڈاکٹر حکیم محمد ابوبکر بن حکیم محمد یحییٰ)
حقیقت نظریہ مفرد اعضاء۔
حکیم و ڈاکٹر تو دنیا میں روز پیدا ہوتے ہیں لیکن علم طب کا عامل صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ایسا ہی علم طب کا عامل پاکستان کی سر زمین کے شہر ملتان میں 1906ءمیں پیدا ہوئے۔ انیس صدی مکمل ہونے کے بعد سن6 میں پیدا ہونے والے شخص نے انسانی جسم کو چھ حصوں میں تقسیم کر کے علم طب کا انقلابی نظریہ مفرد اعضاء کی بنیاد رکھی۔ان کا نام محترم ڈاکٹر حکیم دوست محمد صابر ملتانی تھا۔یہ دنیا کے واحد حکیم تھے۔ جنہوں نے قرآن حکیم کی روشنی میں دل اور دل کے دو پردوں سے متاثر ہوہو کرنظریہ مفرد اعضاء تخلیق کیا، اور قرآن حکیم کے فرمان کے مطابق انسانی جسم میں تین ارواح، اور چار اجسام کا ذکر فرمایا ان چار اجسام میں ہڈی کو غیر روحانی قرار دیا گیا اور اسے انسانی جسم کا ڈھانچہ یعنی بنیادی جسم بتایا گیا۔
ان میں تین اجسام اعصاب، عضلات اور غدد کو روحانی جسم قرار دیا گیا۔
غدد ۔۔۔۔۔۔۔گرم
عضلات۔۔۔۔خشک
اعصاب۔۔۔۔۔۔۔۔تر
اسی طرح خشکی اور گرمی کے مادوں پر نظریہ مفرد کی بنیاد رکھی گئی۔ خالق کائنات نے تخلیق کائنات کی بنیاد تین بڑے مادوں پہ رکھی گئی۔ ان میں آفتابی آسمان سورج گرمی کا بڑا مرکز،
اور
انسانی جسم میں جگر غدد گرمی مرکز ہے۔
اسی طرح
آبی آسمان تری کا سب سے بڑا مرکز۔
انسانی جسم میں
اعصاب دماغ تری کا سب سے بڑا مرکز
اسی طرح
زمین خشکی کا سب سے بڑا مرکز
اور
انسانی جسم میں دل خشکی کا سب سے بڑا مرکز ہے
I am a new comer in this field. and required guaidance.
You will find the kind of guidance you need