احساس و ادراک اور قیاس
احساس و ادراک اور قیاس
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
انسان کی زبردست قوتوں میں سے احساس و ادراک اور قیاس تین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ احساس اور ادراک کو ایک ہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہےبلکہ بعض لوگ تو قیاس کو بھی انہی کے ساتھ استعمال کرلیتےہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بلکہ اس قدر فرق ہے ۔جیسے زمین و آسمان میں فرق ہے۔ گویا ایک دوسرے سے بالکل جدا معنی دیتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ کہ ز بان میں معنی کا تعین انسان کا ذاتی کیا ہوا ہے۔لیکن جو ماہر لسانیات ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ہر معنی کے بیان اور تعین میں مناسبت اور سلسلہ کا تعلق ضرور ہوتا ہے اور جب کبھی اس سلسلہ کی کڑیاں ملائی جاتی ہیں تو حقیقت معلوم کرکے بے حد حیرت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر(صَرف) میں بڑی قوت ہے۔ جب کسی لفظ کا مادہ نکال کر اسی کی کئی کئی ممکن صورتیں بنائی جاتی ہیں تو ہر صورت اپنے اندر ایک جدا قوت رکھتی ہے۔ الفاظ میں اس طرح کے ہیر پھیر تو تقریباً ہر بڑی زبان میں پائے جاتے ہیں لیکن عربی زبان میں یہ خزانہ بہت زیادہ ہے۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ الفاظ کے ہیرپھیر اور طاقت پر کچھ روشنی ڈالی جاتی۔ لیکن طوالت مدنظر اس کو نظر انداز کرتے ہیں اور ذیل میں احساس و ادراک اور قیاس کی قوتوں کو بیان کیاجاتا ہے۔
احساس و ادراک اور قیاس کا فرق
بادی النظر میں تینوں الفاظ کے معنی علم اور جاننا ہے لیکن حقیقت میں ان الفاظ سے حصول علم اور جاننے کے طریق میں اتنا فرق ہے کہ جب تک انسان ان کی حقیقت سے واقف نہ ہو ان سے صحیح طور پر استفادہ حاصل نہیں کر سکتا بلکہ ان کے غلط استعمال سے ان کے فوائد سے محروم رہتا ہے۔ چونکہ اکثر لوگ ان کے صحیح معنوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں۔ خصوصاً احساس اور ادراک کے معنوں کا فرق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان الفاظ میں اس قدر علم و حکمت اور مذہب کے خزانے پوشیدہ ہیں جن کا مقابلہ بہت کم الفاظ سے کیا جاسکتا ہے۔ان کی حقیقت جاننے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کشف کے پردے اٹھا دئیے گئے ہیں اور نور کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ ان الفاظ کو سمجھ لینے کے بعد نہ صرف معنی اور مضمون ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں بلکہ یہ بھی فوراً پتا چل جاتا ہے کہ ان کا تعلق کس قسم کے علم سے ہے۔ یعنی انسان فوراً اندازہ لگا سکتا ہے کہ حاصل شدہ علم الہامی اور لافانی ہے یا تجرباتی و مشاہداتی ہے یا انسان نے اپنے اجتہاد و ثقافت سے ان کی حقیقت کو پا لیا ہے۔ اگر انسان انہی الفاظ کے اصول اور تعین پر غوروفکرکرے تو الفاظ کی حقیقت کی ایک اچھی بھلی تاریخ بن سکتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان نبوت اور بشریت کے علوم کا فرق کر سکتا ہے۔ کیونکہ علم بشریت، تجربات و مشاہدات اور اجتہاد و ثقافت سے آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن علم نبوت الہامی و لدنی اور وجدانی ہوتا ہے۔
احساس و ادراک اور قیاس کے متعلق یہ تعارف اس لئے کرایا ہے کہ انہی کی وساطت سے نہ صرف علم الادویہ میں تحقیقات ہو سکتی ہیں بلکہ زندگی و کائنات اور مابعد الطبیعات کی حقیقت سے بھی آگاہی ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان نفسیات اور روحانیات کی منزلیں آسانی سے طے کرسکتا ہے۔ لیکن اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ علم و حکمت صرف جاننے سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ فکر و عمل سے اس پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ کوئی انسان اس وقت تک صحیح معنوں میں عالم وفاضل اور حکیم و طبیب نہیں بن سکتا جب تک و یقین و فکر اور عمل کا جذبہ و استعداد پیدا نہ کرے۔ صرف علم بغیر عمل و فکرکے بے معنی ہے اور جلد ضائع ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں علماء و فضلاء اور حکماء اطباء میں حقیقت شناس صرف انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ کہ علم و فن اور حکمت کا حق بھی وہی ادا کرتے ہیں۔