آج نہیں تو کبھی نہیں
آج نہیں تو کبھی نہیں
تعارف تجزیہ عذرات اور وجوہات
تصویر ٹھیک کر لیجیے، ایک سبق آموز تمثیل
ایک شخص مطالعے میں مصروف تھا، پاس ہی اس کا بچہ کھیل رہا تھا۔ بچے نے جب غل مچانا شروع کیا تو اس نے بڑی محبت سے کہا دیکھو بیٹا ہم پڑھ رہے ہیں ۔ شور نہ کرو بچہ خاموش ہوگیا
لیکن زیادہ دیر ضبط نہ کر سکا ۔ جب پھر اور ھم مچانے لگا تو باپ کو ایک ترکیب سو تھی ۔ اس نے میز سے پرانے اخبار کا ایک ورق اٹھایا جس پر دنیا کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ باپ نے بیٹے کو سامنے بٹھا کر، اخبار بیچ میں رکھا اور بیٹے کو بتایا کہ یہ دنیا کا نقشہ ہے اور اس میں پاکستان ہے، یہاں سعودی عرب، یہاں امریکہ، یہاں بحر الکاہل اور یہاں ہمالیہ ہے۔ بیٹا دیکھتا رہا اور جی ابو، جمی ابو کہتا رہا۔ پھر باپ نے وہ ورق اٹھایا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بچے کے حوالے کر دیا اور کہا۔ لوبیٹا۔ اسے برابر والے کمرے میں لے جاؤ اور نقشے کو پھر سے جوڑ لاؤ۔
جب بچہ چلا گیا تو باپ نے اطمینان کا سانس لیا اور دل میں کہا تین چار گھنٹوں کے لیے درد سرختم ہوا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بچہ آدھ گھنٹے یا پینتالیس منٹ کے بعد دوڑتا ہوا آیا اور بڑے فخر سے کہنے لگا ابواب ۔ دنیا کا نقشہ ٹھیک ہو گیا ۔ ابو ابو ۔ دنیا کا نقشہ بن گیا ۔ باپ نے دور سے نقشے پر نگاہ ڈالی ۔ پہاڑوں کے سلسلے، دریاؤں کی گزرگاہیں، شہروں کے محل وقوع سب اپنے اپنے مقام پر درست پائے۔ پوچھا۔ بیٹا تم نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا ۔ بیٹے نے جواب دیا ابو یہ کام بڑا آسان تھا ۔ باپ کی جستجو اور بڑھ گئی۔ بیٹا نے کہا ابو ۔ آپ نے جب نقشے کے ٹکڑے
آ نہیں تو کبھی نہیں
کرنے کے لیے اسے اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ اس نقشے کی دوسری طرف اتنی ہی بڑی انسان کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس میں نے اس تصویر کو جوڑ دیا۔ دنیا کا نقشہ آپ سے آپ ٹھیک ہو گیا۔” حقیقت یہ ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی ہو اور جس قسم کی بھی اصلاح چاہتا ہو، اس کے لیےضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے اور اپنی ذات کی تعظیم کی طرف تو جہ دے۔ ہمارے گھروں کا ہمارے دفتروں کا ہمارے محلوں اور علاقوں کا ، ہمارے معاشرے کا اور زندگی کے جن تین معاملات سے ہمارا تعلق ہے، وہاں کا نقشہ بگڑا ہوا ہے۔ اس نقشے کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کی تصویر کو ٹھیک کریں۔ یہ انسان کی تصویر در حقیقت ہماری اپنی تصویر ہے۔ یہ بکھری ہوتی ہے، اسے جوڑ نا ضروری ہے۔ ہم اپنے ماحول کی اصلاح اور حالات کی دینی سی کوشش کرتے ہیں تا کہ نقشہ ٹھیک ہو جائے لیکن ہم کامیاب نہیں ہوتے ۔ گہرائی میں جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے، تصویر بکھری ہوتی ہے۔ تصویر اس لیے بکھری ہوتی ہے کہ:
ہماری زندگی کا کوئی نصب امین نہیں ہے۔
زندگی گزانے اور زندگی سے حاصل کرنے کے لیے کوئی مقاصد متعین نہیں ہے۔
ہمارے ارادے اور عزائم کمزور ہو چکے ہیں۔
و ہماری طبیعت میں سستی اور کا بھی آتی ہے۔ ہمارے معاملات میں تساہل پیدا ہو گیا ہے۔ ہ ہم آج کے کام کو کل پر ٹالتے ہیں ۔ ہم پھر کبھی ” کا شکار ہیں ۔ فیصلوں میں آتی تاخیر ہوتی ہے کہ بس نکل جاتی ہے برین چھوٹ جاتی اور فلائٹ بند ہو جاتی ہے۔ ہم اتنے ڈرپوک ہو گئے ہیں کہ قسمت کامیابی کے دروازے پر میٹنگ دیتی ہے اور ہم اسے کھولتےمیں نہیں۔
در حقیقت ہماری زندگی میں سستی اور کا بھی آگئی ہے اور ہم نے “کل” “پر بھروسا کیا ہوا ہے۔ ہم نے یہ سوچ لیا ہے کہ نصب العین اور مقاصد کا تعین بھی کل کریں گے اور باقی سب کام بھی وقت آنے پر خود بخود ہو جائیں گے۔