فالج اور استرخا
ماخوذ۔۔۔از۔۔۔کتاب المختارات فی الطب حصہ سوم
مہذب الدین ابوالحسن علی بن احمد بن علی بن ہُبل بغدادی (التوفی610ھ)
ناقل :۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
فالج اوراسترخا دونوں ایک ہی ہیں لیکن فالج ایسے استرخاء کو کہتے ہیں جو بدن کو لمبائی میں تقسیم کر دیتا ہے اور بدن کے ایک ہی جانب ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک فالج سرسے قدم تک اور دوسری قسم سر کے نیچے سے قدم تک ہوتی ہے۔
لغات عرب میں یہ لفظ یعنی فالج سر سے لے کر پاؤں تک آدھے جسم کے لیےمخصوص ہے۔ اس مرض میں قوت حس اورقوت حرکت ارادی زائل ہوجاتی ہے اورہرایسے عضوکوعضو مفلوج کہا جاتا ہے جس کی حس اور ارادی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
بعض اوقات سرے تمام بدن میں استرخاپیدا | ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ اس کے ساتھ ساتھ سر کی جلد سن ہوجاتی ہے اور اعضا حس و حرکت ارادی اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مرض میں مریض پشت کے بل پڑارہتا ہے ، وہ نہ محسوس کرسکتا ہے نہ حرکت کر سکتا ہے نہ آواز دے سکتا ہے۔اس مرض سے پہلے سر میں شدید درد اور ادواج میں امتلاء، سدر، دوران سر، آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنا، باتھ ٹھنڈے ہو نا، حرکت میں دشواری تمام بدن میں پھڑکن اور نیند میں دانت کڑکڑانا جیسے عوارضات پائے جاتے ہیں۔
مریض کا پیشاب سیاہی مائل ہوتا ہے اور اس میں ستویا برادہ جیسے رسوب پائے جاتے ہیں اکثر یہ مرض بوڑھوں کو ہوتا ہے اگر گرمی کے موسم میں کی جوان کو یہ مرض ہو جائے تو اس کے ٹھیک ہونے کی امید نہیں رہتی۔
حاصل یہ ہے کہ فالج اور استرخاء کا سبب اعصاب کی جڑوں میں پیداشدہ کوئی سدہ ہوتا ہے جو روح حساس ومحرک بالا رادہ کو اس میں داخل ہونے سے روک دیتا ہے جس سے حس وحرکت ختم ہوجاتی ہے یا عصب کو لاحق ہونے والا سوئے مزاج باردمفرد ہوتاہے جس سے حس و حرکت زائل ہو جاتی ہے یایہ سوء مزاج بارد ، سردتر اور سدہ پیدا کرنے والی رطوبت کے ساتھ پایا جاتا ہے ياعضوکٹنے یا کچل جانے سے تفرق اتصال پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر یہ عرض اور چوڑائی میں واقع ہوا ہو تو یہ حساس روح کے نفوذ کو روک دیتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ اگر یہ لمبائی میں واقع ہوا ہو تو حس کونہیں روکتا۔ اگر تفرق اتصال متفرق طور پر واقع ہوا ہوتو جزوی طور ہی حس کو روکتا ہے۔
بعض اوقات فالج کا سبب کوئی ورم ہوتا ہے جوعصب کی جڑ پر دباؤ ڈالا ہے یا کوئی ہڈی ٹوٹنے سے نخاع یا عضو کی طرف آنے والی عصب پرد بائو پڑتا ہے۔
کبھی اس کا سبب عصب کا موٹا ہو جانا اور اس میں گانٹھیں پیدا ہو جانا ہوتا ہے اورکبھی کسی لیسدار رطوبت کے سبب رباطات میں تری پیدا ہونے اور ہڈی کے اپنے مقام سے پھسل کر نکل جانے کی وجہ سے عضو اپنے جوڑ سے ہٹ جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ رطوبت کسی عضورئیس سے مادہ قولنج کے دفیعہ
کے دفعیہ کے سبب پیدا ہوتی ہے۔(کتاب المختارات الطب سہل بغدادی3/53)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تو فالج کے بہت سے ایسے مریض دیکھے ہیں جن کے کندھے اکھڑ گئے لیکن میں نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو اس سے محفوظ
رہاہو۔ قولس(ایک یونانی حکیم) بیان کرتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو توقولنج لاحق ہوا اور جن لوگوں کو اس سے نجات اورچھٹکارا نصیب ہوا ان کے کندھے اکھڑ گئے لیکن ان کی حس زائل نہیں ہوئی ۔بعض بحران کے طور پر فضلات کے دفعیہ کے سبب اطراف (ہاتھوں) کا انخلاع ہو جاتا ہے جیسا کہ سرسام اور برسام کے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جب کسی جگہ کرنے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے استرخاء واقع ہوتا ہے تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔
جالینوس کا قول ہے کہ بوڑھوں کو استرخاء اور فالج اکثر اس وقت لاحق ہوتا ہے جب ان کے سر مرد رطوبت سےپرُ ہوتے ہیں خاص طور سے اس وقت جب کہ اعصاب میں ضعف ہو اور بچے اگرسبز پیشاب کرنے لگے تو اس کو فالج یا تشنج ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
علامات:- جس قالج کا سبب چوٹ یا کسی ہڈی کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا دباؤ ہوتا ہے ،وہ ظاہر ہوتا ہے اور اس کے فورا بعد استرخاء ظا ہر ہو جاتا ہے اور جس کا سبب ورم حار ہوتا ہے اس میں کھنچاؤ اور درد پایا جاتا ہے اور مریض کو بعض دفعہ بخار آجاتا ہے۔ اگر اس کا سبب ورم صلب ہوتو تعقد اور بستگی اس پر دلالت کرتے ہیں اور چھونے سے معلوم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ورم کی صلابت کی حاد ورم کےتحلیل سے پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی چوٹ اورگر پڑنا اس پردلالت کرتے ہیں۔ اگر ورم رخوسبب ہو تو اس کی پہچان دشوار ہوتی ہے۔ لیکن یہ درد اور بخار سے خالی نہیں ہوتا نیز استرخا آہستہ آہستہ واقع ہوتا ہے۔ اورکبھی اس کا سبب اعصاب میں موٹا پن اور گانٹھیں پیدا ہو جانا ہوتا ہے اور مریض حرکت کے وقت ورم کے باعث رکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ یہ
تکلیف کوئی عضوسکڑ نے کے بعد اس کا کھولنا یا پہلی حالت پر لانے میں دشواری اس پردلالت کرتی ہے اور رطوبت کے سبب پیداشدہ فالج کی طرح اعضاءنرم نہیں ہوتے۔
جس فالج کا سبب دماغ اورنخاءپر بلغم اور رطوبت کا غلبہ ان کا اعضاء میں سرایت کر جانا ہوتا ہے جو کہ اکثر واقع ہوتا ہے تو اس کی علامات پہلے سے غلبہ بلغم کی علامت، رنگ سفید، ڈھیلاپن ، ناک بہنا، لعاب کی کثرت اور چھونے پر شدید برودت کا احساس وغیرہ ہیں۔ اگر رطب مادہ کے ساتھ غلبہ خون پایا جا تا ہو تو چہرے میں سرخی ، حرارت اور رگیں پھولی ہوئی ہوتی ہیں۔ جوفالج قولنج یا بخاروں کے بعد واقع ہوتا ہے ۔یہ ا مراض اس پردلالت کرتے ہیں اور جس کا سبب کسی عضو کا انخلاع ہوتا ہے تو جوڑ اور مفصل کے مقام پرزائدہ یعنی لقمہ کاا بھار محسوس ہوتا ہے۔ اور جب جوڑ کو حرکت دی جاتی ہے تو خلع ظاہر ہو جاتا ہے۔
علاج:-
وہ فالج۔ جس کا سبب رطوبت اور سوء مزاج بارد ہو جو اکثر واقع ہوتا ہے تو اگر کسی کو یہ ہوجائے تو اخلاط میں نضج و لطافت پیدا کیے بغیر اس کے استفراغ میں جلدی کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ ابتدائی ایام میں گل انگبین (عرق گلاب اور شہد)پلائیں اور گرم پانی پر اکتفا کریں۔ اگر اس پانی کے ساتھ انیسون ،سونف تخم کرفس،وج ترکی ، حاشا بھی جوش دے لیں تو اور بہتر ہوتا ہے چنانچہ چند ایام روزانہ اسی کے پینے پر اکتفا کریں اور تھوڑی سی خشکاری روٹی کے ساتھ چنے کا پانی اور روغن زیتون پینے کو دیں اور سات دنوں کسی مسہل وواسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک نہ دیں، اس کے بعد جلنجبین اور ۳،۵ گرام رو غن ارنڈ، کے ساتھ ماء الاصول دیں۔ اگر قبض ہوتو سویا ،بابونہ، سداب ، خارخشک اور ناخونہ ہر ایک ایک ایک مٹھی، انیسون،تخم کرفس، زیرہ اور پودینہ پر ایک ۵،اگرام قرطم ۳۵ گرام اور سلق ایک مٹھی کو2 لیٹر پانی میں اسقدر جوش دیں کہ 600ملی لیٹر پانی رہ جائے اس کو صاف کر کے اور شکر سرخ ۳۵ گرام، مری ۳۵ گرام، روغن رات رانی ۳۵ گرام اور بور ۳ء۵۱ گرام کو اچھی طرح گرم کر کے اس
سے مریض کوحقنہ کریں اور کئی روز لگا تارکرہیں جب تک نفج ظاہر نہ ہوجائےمسہل نہ دیں ، خالص پانی خاص طور سے ٹھنڈا پانی نہ دیں بلکہ ماءالعسل دیں اور صرف اتنی حرارت پہنچائیں جس کی مزاج ،عمر ، موسم اور شہراجازت دیں تا کہ عفونت پیدا ہو کر بخار نہ آ جائے کیونکہ بخار علاج میں مانع ہوتا ہے۔ اس کے بعد بلغم کا استفراغ کرنے والی گولیاں مثلا حب ملین۔ حبشیطرج حب اسطوخودوس اور ایارج روفس وغیرہ دیں۔(صفحہ55)