علاج و ادویات میں
تجربات کے آسان طریقے
علاج و ادویات میں
تجربات کے آسان طریقے
باقیات الصاحات،مجدد الطب صابر ملتانیؒ
طب میں سوجھ بوجھ و مہارت خدا داد عطیہ ہے،جو صرف مخصوص شخصیات کوجہد مسلسل کثرت مطالعہ و تجربات کی بنیاد پر بخشا جاتا ہے
پیش کردہ:
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
انسان پر تجربات کرنا تو حکومت کے لئے بھی مشکل ہے کیونکہ تجربات کےلئے قیمتاً انسان حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے، پھر ایک تجربہ کےلئے کئی کئی انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک انسان میں فن پر قربان ہونے کا جذبہ پیدا نہ ہو ایسے تجربات انتہائی مشکل ہیں۔ حیوانوں پر تجربات کرنے کے لئے بھی حکومت کی امداد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ البتہ ایک آسان طریقہ ایسا ہے جس سے سہولت کے بغیر قیمتی تجربات ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ تجربات عام معالج نہیں کر سکتے بلکہ فاضل معالج ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ وہی اس کے اہل ہیں۔
تجربات بالفعل عمل
جس دوا کا تجربہ کرنا مطلوب ہو اس کا مفرد ہونا ضروری ہے بلکہ مفرد دوا جن عناصر یا اجزا سے مرکب ہو ان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی دوا مرکب ہو تو لازم ہے کہ اس مرکب میں جو مفرد ادویات ہیں ، ان کے وہ پورے طور پر تجربہ شدہ ہوں یعنی ان کے افعال و اثرات اور خواص و فوائد کا پورا پورا علم ہوتاکہ مرکب دوا کے تجربات میں راہنمائی کریں۔ ان کو ذیل کے اصولوں پر تجربات کریں۔
تجربے کے لئے مطلوبہ دوا کے افعال و اثرات اور خواص و فوائد کو دو تین مستند طبی کتب سے مطالعہ کرکے ان کے مزاج و کیفیات اور اخلاط کو سمجھنے کے بعد ان کا بالاعضاء تعین کرنا چاہیئے۔
اپنے تعین کرنے کے بعد افعال و اثرات اور خواص و فوائد کو آیورویدک، ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے ساتھ تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جہاں جہاں اختلاف پائیں ان کو نوٹ کریں اور اختلاف کی وجہ معلوم کریں۔
یہ معلوم کریں کہ طب یونانی کے علاوہ دیگر طریق علاج میں یہ دوا کن کن امراض و علامات میں استعمال کی گئی ہے؟ ا ور کن کن مقداروں میں دی گئی ہے؟ اور جن امراض و علامات میں دی گئی ہے ان کاتعلق اس عضو یا ان اعضاء کے ساتھ جن کے لئے ہم نے تعین کیا ہے اور مختلف مقداروں میں یا کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقداروں میں استعمال کرنے سے کیا کیا فرق بیان کئے گئے ہیں؟ مثلاً ہم نے ایک دوا کی کیفیات و مزاج اور اخلاط کا تعین کرنے کے بعد اس کے اثرات دماغ و اعصاب پر متعین کئے ہیں ، یعنی اس سے اعصاب کے فعل میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ مختلف مقداروں میں ان کے افعال و اثرات میں کمی بیشی پیدا ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس امر پر غور کریں کہ دماغ و اعصاب کے بعد اس کااثر دل پر پڑتا ہے یا جگر پر اور وہ کس قسم کا ہے؟ نظریہ مفرد اعضاء کے تحت اس طرح غور کریں کہ اگر کوئی دوا محرک اعصابی ہے تو وہ اعصابی غدی ہے یا اعصابی عضلاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو ادویات اعصابی ہیں وہ یقیناً غدی محلل اور عضلاتی مسکن ہوں گی۔
اس تعین کے بعد اس دوا کا سفوف تیار کرلیں۔ اگر تلخ ہو تو گولیا ں تیار کرلیں اور قابل حل ہے تو اس کا محلول بھی تیار کرلیں پھر اس کا استعمال اس اندازہ میں کریں کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے کسی نہ کسی عضو رئیس کی طرف دوران خون تیز نہ ہو اس لئے پہلے دوا کو قلیل مقدارمیں اسی تحریک کے لئے دیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً دوا میں اعصابی تحریکات پائی جاتی ہیں تو اسی قسم کے تندرست انسان میں دیں۔ پھر اس حد تک بڑھا کر دیں کہ اس کے لئے تکلیف کاباعث نہ ہو، جب یقین ہو جائے کہ واقعی اس سے تندرست انسان کے عصبی نظام میں تیزی پیدا ہو گئی ہے تو پھر اس کسی ایسے مریض کو قلیل مقدار سے لے کر اس حد تک استعمال کرائیں کہ اس کی تکلیف میں اضافہ نہ ہو اس کے مرض اور علامت میں بھی حسب منشا اضافہ ہونے پر یقین ہو جائے گاکہ واقعی دوا کے افعال و اثرات صحیح ہیں۔ بعض دفعہ قلیل مقدار میں دوا دینے سے طبیعت مدبرہ بدن مرض کو رفع کر دیتی ہے۔ ایسے میں آرام آجانے پر زیادہ سے زیادہ مقدار میں دوا دے کراثرات اور افعال کو مرتب کرلیں۔
محرک اعصاب دوا اس قسم کے مریض کے تحریک پر استعمال کرانے کے بعد پھر ایسے ہی تندرست اور مریض انسان پر استعمال کرائیں جن کے اعصاب میں تسکین سادہ ہو، پھر ایسے مریض پر جس کے اعصاب میں تسکین متعفنہ ہو ، افعال و اثرات نوٹ کرلیں۔ مقدار خوراک کا فرق بھی دیکھ لیں۔لیکن اس طرح مریض کا مرض رفع ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں دوا جاری رکھیں اور مقدار زیادہ سے زیادہ بڑھا دیں لیکن اس حد تک کہ قابل برداشت ہو، پھر دوا کے افعال واثرات کا مطالعہ کریں کہ واقعی اس میں اعصابی تحریک کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح دوا کے افعال و اثرات مرتب ہو جائیں گے اور مریض کا شفا یا ب ہونا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ان تجربات میں بیک وقت ایک دو انسان نہیں ہونے چاہییں بلکہ کوشش کرنی چاہیئے کہ متعدد انسان زیر تجربہ ہوں۔۔۔۔۔ تاکہ ان افعال و اثرات کے ساتھ ساتھ خواص و فوائد بھی مرتب کر سکیں۔ مثلاً اس اعصابی دوا کا سر سے لے کر پاؤں تک کے اعصاب میں کن کن پر زیادہ اور شدید اثر پڑتا ہے اور کن پر کم پڑتا ہے۔یہی اس کی بالخاصہ صورت ہو گی اور اسی حصہ جسم کے اعصاب کے لئے وہ دوا مخصوص کر دی جائے گی اگرچہ ضرورت کے وقت ہم اس سے دیگر اعضاء کے اعصاب میں بھی تیزی پیدا کر سکتے ہیں مگر وہ خاص عضو زیادہ متاثر ہو گا۔ ایسے تجربات بے حد احتیاط سے کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح دوا کے افعال و اثرات بیرونی طور پر بھی حاصل کرنے چاہییں مثلاً تندرست مقام پر دوا کا سفوف ملیں یا اس کا خیساندہ اور جوشاندہ ڈالیں۔ تیل میں ملا کر مالش کریں۔ اسی طرح مریض مقام مثلاً درد، ورم اور سوزش و زخم پر اس کے اثرات و افعال حاصل کریں، جو دوا آنکھ، کان اور ناک کے لئے بھی اثرات رکھتی ہو تو وہاں پر بھی استعمال کریں اور نتائج نوٹ کرتے جائیں۔ اس طرح کے تجربات جن ادویات پر کئے جاتے ہیں تو ا س سے یقینی بے خطا خواص و فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بعض انسان نازک مزاج ہوتے ہیں اور بعض سخت طبع اور بعض جنگلی قسم کے انسان، جن کے مزاج کی شدت حیوانات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح بچوں کے مزاج میں تری گرمی (اعصابی غدی)غالب ہوتا ہے۔ جوانوں میں گرمی خشکی(غدی عضلاتی) کا مزاج غالب ہوتا ہے۔ اسی طرح بوڑھوں میں سردی خشکی(عضلاتی اعصابی)کا مزاج غالب ہوتا ہےاور عورتیں مردوں سے زیادہ نازک ہوتی ہیں اور ان کا مزاج زیادہ تر غدی رہتا ہے ،چاہے وہ غدی اعصابی ہو یا غدی عضلاتی۔ اعصابی بہت کم ہوتا ہے اور عضلاتی بالکل نہیں ہوتا۔ اس لئے ہر ایک پر ادویات کے تجربات کرتے ہوئے دوا کی مقدار اور خوراک کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیئے، اسی طرح غلطی نہیں پیدا ہوتی اور نتائج صحیح حاصل ہوتے ہیں۔
تجربات میں کیمیائی اثرات
مندرجہ بالا تجربات مشینی اور فعلی ہیں لیکن ہر دوا و غذا او ر شے کا ایک اثر کیمیائی بھی ہوتا ہے۔ اگر چہ کیمیائی اثرات بھی مشینی و فعلی اور اعضائی ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک کیمیائی اثرات خون میں غالب نہ ہوں تو کسی عضو میں فعلی اثرات کیسے کر سکتے ہیں۔ بس ہر دوا و غذا اور شے جو اپنے اثرات خون میں شامل کر تی ہے جیسے اجزاء عناصر اور ارکان خون ہیں۔ پس یہی کیمیائی اثرات ہیں مثلاً کبھی خون میں کسی دوا ، غذا اور شے سے صفرا و حدت بڑھ جاتی ہے۔ کبھی خون کی زیادتی و جوش بڑھ جاتا ہے۔ کبھی بلغم و رطوبت اور رکت بڑھ جاتی ہے۔ کبھی خون میں سودا و غلظیت اور ریاح کی زیادتی ہو جاتی ہے۔کبھی کھاری پن اور کبھی ترشی زیادہ ہو جاتی ہے۔ فعلی اور کیمیائی اثرات کا فرق یہ ہے کہ فعلی اثر وقتی ہوتا ہے اور کیمیائی اثر دائمی اور مستقل ہوتا ہے۔ مرض اور شفا اس وقت تک مستقل نہیں ہوتے جب تک کیمیائی اثرات غالب نہ ہو جائیں ۔ کیمیائی اثرات کے بعد ہی بالخاصہ اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
کیفیاتی اور نفسیاتی تجربات
ادویہ و اغذیہ اور اشیاء کے تجربات میں جسم کے فعلی و کیمیائی اثرات ہی کافی نہیں ہیں بلکہ کیفیاتی اور نفسیاتی خواص و فوائد کا جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ایک طرف ایسے خواص اور فوائد انسانی مزاج و جذبات اور فطرت کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف تشخیص امراض میں ہماری راہنمائی کا کام دیتے ہیں مثلاً بعض ادویات و اغذیہ اور اشیاء کے استعمال میں انسان گرمی و سردی اور تری و خشکی کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ظاہرہ طور پر جسم پر ایسی کوئی کیفیت نہیں پائی جاتی ۔ گویا جسم کے اندر مرض ضرور محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس بعض دفعہ انسان ظاہری طور پر ان کیفیات کی تکالیف کا انکار کرتا ہے لیکن ظاہرہ جسم میں وہ کیفیات شدت سے پائی جاتی ہیں۔ گویا اندرونی جسم میں مریض کو ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی بھوک پیاس شدید ہوجاتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے، کبھی بھوک پیاس ہوتی ہے مگر کھایا پیا نہیں جاتا، کبھی کھایا پیا جاتا ہے مگر فوراً قے ہو جاتی ہے، کبھی کھانے پینے کے نام سے جی متلاتا ہے، کبھی بھوک ہوتی ہے ، پیاس نہیں ہوتی اور کبھی پیاس ہوتی ہے مگر بھوک نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح کبھی مریض تازہ ہوا، ٹھنڈے پانی اور کھلی فضا طلب کرتا ہے اور اکثر اپنا منہ خاص طور پر سوتے میں کھلا رکھتا ہے، کبھی ٹھنڈٰی ہوا اور پانی سے گھبراتا ہے اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیناپسند کرتا ہے۔ کبھی گھنٹوں خاموش بیٹھا رہتا ہے یا ایک ہی حالت میں پڑا رہتا ہے۔ کسی عضو کو حرکت دینا پسند نہیں کرتا، کبھی بے چین نظر آتا ہے کسی پہلو قرار نہیں آتا، اٹھتا ہے ، بیٹھتا ہے، کبھی گھنٹوں چلتا ہے یا بیٹھے اور لیٹے ہوئے اپنے کسی نہ کسی عضو کو حرکت دیتا ہے۔