عطائے صابر
عطائے صابر
پیش لفظ
علمائے یونان ۔ لقمان اور ار سطو، سقراط افلاطون درجیل اور اسی طرح کی دیگر شخصیات کہ جنہوں نے نہ صرف علم طب بلکہ اس کا ئنات کے ہر جزوپر اور نظام پر کام کیا ہے ۔ اور اسی طرح علمائے مشرقی ابن رشد ابن ماجہ ابن طفیل بو علی سینا الہاشم جابر بن حیان ابو نصر فارابی الکندی البیرونی جیسے نامور علماء کہ تاریخ جس طرح ان کی عظمت کے سامنے سر جھکائی ہے۔ ایک اور آئے گا کہ تاریخ حکیم انقلاب جناب الحاج دوست محمد صابر ملتانی کے حضور بھی گردن جھکائے گی۔
ان بزرگوں کے کہ جن کا ذکر تمہیدا” اوپر دیا گیا ہے۔ ان بزرگوں کے کارہائے نمایاں کے مقابلہ میں صابر ملتانی کی تحقیق کچھ کم نہیں ۔ اس محقق نے خالق کائنات کے اس کارخانہ قدرت کے خود کار نظام کو جس تحقیقی نگاہوں سے دیکھا۔ اور پڑھا ہے ۔ اتنی گہری نظر سے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ خالق کا ئنات کے دیگر نظاموں کی بات اگر کریں تو بات بے حد طویل ہو جائے گی ۔ اس وقت ہم دو بات کر رہے ہیں کہ جس پر موصوف نے اپنی 20 سالہ زندگی کو اس فن کی تجدید اور ترویج کے سلسلے میں اس فن کی نذر کی ۔ قدرت کی بہترین اور خوبصورت تخلیق کے شاہ کار فی الارض خلیفہ کی مزاجی کیفیت اور ان کیفیات سے وجود پانے والے اخلاط کی رطوبتوں سے خلیوں کی صورت میں اجتمائی طور پر اعضاء مفرد اعضاء”
ر ئیسہ اور ان اعضاؤں کے مزاج کے کمیلی ملاپ کے تصادم سے پیداہونے والے پر تھے کہ جن کو روح کہتے ہیں ۔ ان برقیوں کی مثبت اور منفی لہروں سے مقناطیسی قوتیں اور ان قواء کے مقناطیسی کشش ثقل سے ہر عضؤ ریس کے انجام پانے والے افعال ان ترتیب دار کاموں کے منتظم حضرت انسان کے وجود کی نشاندہی کر کے حضرت صابر ملتانی نے اس علم کے تحت کائنات میں ہر جزو کو روشناس کرایا۔
یہ خالق کی پہچان کا اتنا بہترین انداز ہے کہ جو اس خدا کے بندے نے اپنام کہ قدرت کاملہ کے ہونے کی دلیل دی ہے۔ صابر ملتانی نے پانی کو دیکھا۔ اور اس کائنات پر اس کے تینوں رویوں کے کیمیائی اثرات پر غور کیا۔ تو اس کو انسان کے اندر بلغم کی صورت میں پایا۔ یہ خلط جو کیمیلی طور پر الکلی کے اثرات رکھتی ہے۔ اگر یہ مائع حالت میں ہے تو سردی ترکی کی کیفیات مرتب کرتی ہے۔ اسی طرح جب اس میں صفراء کے حرارے شامل ہو جائیں تو یہ غلط تری گرمی کے اثرات اور اسی طرح اگر اس میں سوڈا کے اثرات شامل ہو جا ئیں تو یہ الکلی اور سردی کے اثرات رکھتی ہے ۔ یہی حال سودا کا ہے کہ جب اس میں بلغم کی تری کے اثرات مرتب ہوں تو سردی الکلی اور اگر اس پر صفراء کے حرارے مرتب ہوں تو خشکی گرمی کے اثرات رکھتا ہے ۔ اس طرح صفرا جو کیمیلی طور پر سالٹ ہے۔ (الکلی) یہ بھی خشکی گرمی کے کیمیائی اثرات سے گرمی الکلی پیدا کرتا ہے ۔ اور جب یہ
اپنے مزاج میں شدید تر ہو جائے تو مشینی حالت میں اگر یہ تری پیدا کرتا ہے۔ اور گرمی تری کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ ہے حضرت سایر ملتانی کی تحقیقات کا نچوڑ کہ جن کو حضرت صابر ملتانی نے نظریات کیا ہے اور ار جب ان نظریات کو موسموں کے ناقابل تردید اثرات وافعال کو ان کی تحقیقات کا مانہ پایا۔ تو جیسے فطرت موسموں کے اثرات سے ان کے بے پناہ افعال سے سر انجام پانے والے بے پناہ کام جو اس کائنات کے خود کار نظام میں سر انجام پا رہے ہیں ۔ جب یہ صورت ان کی تعلیمات سے ہم اور اور تربیت یافتہ لوگوں کے سامنے آئیں تو ہم لوگوں نے اس کو بجائے نظریات کے قانون مانا۔ جیسے اس دنیا کے سارے نظام بلا تردید کام کر رہے ہیں۔ ان کی روشنی میں تحقیق کی صورت میں مرتب ہونے والے ہر علوم بھی ناقابل تردید ہیں ۔ اس لئے ہم صابر ملتانی کے علم کو بھی نا قابل تردید قانون مانتے ہیں جو لوگ آج کے دور میں اس علم سے روشناس ہو گیا انسانیت کے علاج کی صورت میں خدمت کریں گے وہ یقینا اپنی خواباش خدمت کے سلسلہ میں یقینا کامیاب ہوں گے۔ آج کے دور میں ہم یقین سے کہتے ہیں کہ جو کچھ قدرت اس کا ئنات کے چلانے میں ہر موسم کے دور سے کام لے رہی ہے۔ کبھی ترکی سردی اور بھی گرمی الکلی اور کبھی خشکی گرمی ۔ اور اسی طرح سردی تری کبھی تری گرمی اور کبھی تری سردی پیدا کر کے اس خود کار نظام کو چلارہی ہے۔ اسی طرح ہم لوگ بھی غذاؤں
اور دوائوں سے ان مزاجی کیفیات کو بدل کر صحت کی صورت پیدا کرتے موسموں کے اثرات سے جیسے گرمی کو تری کی تحریک دیکھ خشکی کو تسکین دیتے ہوئے گرمی کے اثرات تحلیل کر دیتے ہیں ۔ یہی صورت ہے جو صحت کو بحال کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ ان ہی تدابیر پر یہ کتاب مرتب کی گئی ہے ۔ ان شاء اللہ یہ اس فن میں یقینا رہنمائی کرے گی۔