حکیم انقلاب ؒکے شاگردوں کی تصنیفی خدمات۔قسط اول
حکیم انقلاب ؒکے شاگردوں کی تصنیفی خدمات۔قسط اول
از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
(1)عطائے صابر
یہ کتاب ایک ایسی شخصیت کی محنت کا نتیجہ ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو دیکھئے۔اور اس ہستی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کی سعادت حاصل کی جس کے نتیجہ فکر کو دنیا قانون مفرد اعضاء کے نام سے شناخت کرتی ہے۔۔بھیڑ کے ساتھ نعرہ بازی کرنا اور سیلاب میں تنکے کی طرح بہتے ہوئے چلے جانا روش دنیا ہے ۔قانون مفرد اعضاء ایک ایسا بند ہے جسے شخص واحد نے باندھا اور اس کے معانوت اس کے شاگردوں نے کی ۔آج جب باغ لہلہا رہا ہے تو خوشہ چین اپنی اپنی جھولیاں گل چینی کے لئے پھیلائے ہوئے ہیں۔۔اس شک نہیں کہ اس فن کو بے شمار لوگوں نے خون جگر دیکر سینچا۔لیکن اکثر ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس سے فائدہ زیادہ اٹھایا اور اسے فائدہ کم پہنچایا ۔۔یہ ایک ایسا لگا بندھا راستہ ہے۔اور اتنی حقیقت پر مبنی راہ ہے یہاں سے اجنبی بھی گزرے توبھی اپنا دامن جواہرات سے بھر لیتا ہے۔
اس سے بڑا انقلاب کیا ہوگا کہ جو فن صرف اسی قدر رہ گیا ہو کہ کوئی اچھا سا نسخہ حاصل کرلیا جائے تاکہروزی روٹٰ کا بندوبست ہوسکے۔لیکن حجرت مجدد الطب دوست محمد صابر ملتانی نے تو مجربات کا ایسا دریا بہا دیا جسے ہر گھر میں تیار کیا جاسکے اور صعب و عسیر امراض کا علاج کیا جاسکے۔علم التشخیص طب کا وہ شعبہ ہے جس میں خال خال لوگوں کا ہی گزر ہوتا ہے۔انہوں نے اس دروازے کو ایسا کشادہ کیا آج ہر طرف استاد الاطباء دیکھائی دیتے ہیں/
کتاب ہذا ایک مختصر و جامع کتابچہ ہے۔جسے طالب علم حفظ کرنا چاہے تو ازبر کرسکتا ہے۔بغؤر مطالعہ کرنے سے طبیب یوں سمجھتا ہے اب دنیا کی کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔کوئی قیمتی جزو نہیں سہل الحصول اجزاء پر مشتمل نسخہ جات ہیں۔پھر نسخہ جات کی درجہ بندی اس انداز میں کی گئی ہے کہ ہر کوئی مرضی کے مطابق اجزاء کا انتخاب کرسکتا ہے۔انہوں نے جو انداز تفہیم اختیار کیا ہے ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
حجرت مجدد الطب علیہ الرحمۃ نے جو انداز اپنی کتب میں اختیار کیا وہ دنیائے طب میں کسی مصنف نے نہیں کیا۔اس میں شک نہیں کہ مسلم اطباء کا گرانقدر ذخیرہ ان کی نظر سے گزرا۔انہوں شیخ الرئیس کو بغور مطالعہ کیا۔ان کے حوالہ جات سے اپنی کتب کو مزین کیا۔ لیکن نقل در نقل یا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی تجدد پسند طبیعت کو مطئن کرنے اور تحقیقات کا نیاد باب کھولنے کے لئے کیا۔اگر کسی کے پاس وقت ہوتو حضرت مجدد کی لکھی ہوئی کتب اور جن کتب پر انہوں نے داروگیر کی ہے کا مطالعہ کریں تو ان کی بلند نگاہی اور تجدد انہ عنصر کا اندازہ ہوجائے گا۔
کسی میںا اپنی ہمت ہے کہ جو ۔قرشی۔۔۔۔۔۔وغیرہ لوگوں کو کٹہیرے میں کھڑا کرسکے۔یا مخزن حکمت وغیرہ کتب کا محاکمہ کرسکے۔یہ کتب اس وقت کے اساطین طب اور نمائینداگان طب نے لکھی تھیں ۔ان کی معاشرتی حیثیت اتنی زیادہ تھی کہ اس وقت سوائے سرخم تسلیم کے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی خیال ہی نہ ابھرتا تھا۔اگر صابر صاحب کا دعویٰ بودا ہوتا تو اسی وقت یہ لوگ ان کی درگت بنا دیتے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس لابی تھی۔ادارے تھے۔حکومتی رسوخ تھا۔انہیں نمائیندہ سمجھا جاتا تھا۔ان کی بات کو اس لئے بی اہمیت دی جاتی تھی کہ ان کے زیر سایہ چلنے والے اداروں میں کثیر تعداد میں طلباء علم طب حاصل کررہے تھے۔اساتذۃ کے کام پر حرف تنکیر کاسوچنا ہمارے معاشرہ سے عنقاء ہوچکا ہے۔نئی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ادب و تمیز نامی ایک دبیز پردہ تیار کیا ہوا ہے،کہ جس نے بھی بڑوں کے بارہ میں کوئی روش مروجہ کے خلاف بات کی وہ کتنا بھی قابل کیوں نہ گستاخ ہے۔اپنے علم سے مستفید نہیں ہوسکتا۔یہ بانچھ پر کےوہ جراثیم ہیں جنہوں نے امت کو بانجھ کردیا ہے۔اور شخصیت پرستی نے زوال کو من گھڑت روایات کی مدد سے مزین کردیا ہے۔
حضرت مجد الطب علیہ الرحمۃ کا منشاء۔
انہوں نے اپنی زندگی میں جس قدر جانفشانی سے کام لیا۔اور جس گہرائی سے علم الطب کا مطالعہ کیا وہ خال خال ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔شخص واحد کتنا بھی جینئیس کیوں نہ ہو ۔اس کا دائرہ کار محدود رہتا ہے۔جب ایک پہلو کو پرکھتا ہے تو بے شمار پہلو نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔لیکن اس اوجھل پن کا مطلب یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ دیگر پہلو غیر اہم ہیں۔
حجرت مجدد الطب نے چومکھی لڑائی لڑی۔بھیڑ بکریوں کی چال والے معاشرہ میں ایک نظرہ و قانون کو متعارف کرانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔پھر لوگوں کو پیدائشی طور پر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ہر عمارت کہن کی حفاظت کرنی ہے۔جوکوئی عمارت نو بنانے کی کوشش کرتا ہے اس کے وہ خدا واسطے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔اس دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی کی سب راہیں مسدود کردیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔اس کے علاوہ مفاد پرست ٹولے سے بھی میدان عمل میں پرسرے پیکار ہونا پڑا۔اپنے نظر یہ کے لئے مواد اور تصنیفات بھی لکھنا پڑیں۔وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا وقت اس فکر میں بھی گزرا۔کہیں تجربات و فکر و نظریات کی نمو ہورہی تھی تو کہیں ان نظریات کے عملی ثبوت کے لئے مطب میں آزمائش جاری تھی۔
وہ اپنے فارماکوپیا کو اپنی وجود کی لبارٹری میں پرکھتے۔اس کے اثرات پر غور و فکر کرتے۔پھر اپنے مطب میں انہیں پیش فرماتے۔اسی کاوش نے کم خرچ بالا نشین سہل الحصول فارماکوپیا دیا جسے کوئی بھی طبیب کسی بھی وقت کسی مریض پر استعمال کرسکتا ہے۔اگر مجدد الطب کی تشخیص کو اپنا کر اپن کے فارماکوپیا سے استفادہ کیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ مطلوبہ نتائج دیکھنے کو نہ ملیں۔ حضرت مجدد الطب اپنی کتاب تحقیقات علاج جنسی امراض صفحہ 197میں لکھتے ہیں”ہم نے اپنی بیس سالہ تحقیق میں ثابت کیا ہے”یعنی ایک عمل کو جو انسان بیس سال تک کرتا رہے اس کے جنون کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟
حضرت مجدد الطب کی خواہش۔
صابر ملتانی کے بارہ میں ان کے شاگرد حکیم محمد یسین دنیا پوری لکھتے ہیں :انہوں نے آخری عمر میں اردو تفاسیر قران کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔کہ میرے طریق علاج اور مجوزہ قانون میں جو چیز قران و حدیث کے مطابق ہو اسے باقی رہنے دیا جائے۔جو مطابقت نہ رکھے اسے محو کردیا جائے(حوالہ؟؟؟)انہوں نے اپنے کتب کے مقدامات اور پیش لفظ میں قرانی آیات اور احادیث مبارکہ جابجا ذخر کی ہیں۔وہ اپنے نظریات کا استشہاد قرانی آیات اور احادیث مبارکہ سے کرتے ہیں۔
حضرت مجدد الطب سے منسوب لوگوں نے ان کے نظریات وقانون کو بہت محنت سے لوگو تک پہنچایا۔اپنی حیات فانی کی متاع عزیز کو اس پر قربان کیا اور وہ چیزیں جو تکنیکی اور فنی تھیں انہیں آسان و عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا۔کتابیں لکھیں۔سیمنارز کا اہتمام کیا۔کالج و مطب کھولے۔فری کیمپ لگائے۔مشاہدات و تجربات لوگوں کے سامنے رکھے۔ایسے گوہرہائے نایا ب لوگوں کے سامنے آئے ایک صدی پہلے جن کا تصور بھی مشکل تھا۔
لیکن حکیم صاحب کی آخری کواہش کہ میں اپنے نطریات کو قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھوں۔جو مطابقت رکھے باقی رہے جہاں تضاد موجود ہو اسے ختم کردیا جائے۔کاش یہ کوئی صاحب یہ کام بھی سرانجام دیدں۔تو سمجھیں نطریہ مفرد اعضاء حقیقی طورپر ایک قانون بن جائے۔یہ کاوش ایک ایسا دروازہ کھولے گی جو دین حقہ کی صداقت کو اس جہت سے پرکھنے اور بطور ثبوت کے پیش کرنے کی راہ ہوگی۔
ہم نے ایک مشاہدہ کیا مفرد اعضاء کو دیندار طبقے نے زیادہ اپنایا ہے۔اللہ نے ان کے لئے کامیابیاں بھی پنہا کی ہیں۔لیکن استفادہ کرنے والوں نے کبھی اپنی خدمات نظریہ کے لئے پیش نہیں کیں۔
اس میں شک نہیں کہ۔مصنف عطائے صابر نے اپنی دیگر کتب میں کچھ آیات زکر کی ہیں۔جن سے استشہاد کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فیص؛لے بھی حکمت سے پُر ہوتے ہیں۔حجرت مجدد علیہ الرحمہ کی طرح حکیم الہی بخش عباسی صاحب بھی حافظ یا عالم نہ تھے۔انہوں نے بھی کسی حافظ صاحب سے آیات سنتے ۔اور سمجھ بوجھ کے مطابق انہیں نقل فرمادیتے۔یہ ان کا جذبہ مذہبی تھا کہ وہ طب کو اسی سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں جس میں ایک ایمان دار انسان مکمل شرح صدر کے ساتھ فن طب کو بھی اسی عقیدت و محبت سے اپنا سکے جیسے دیگر دینی امور کو اپنائے ہوئے ہے۔
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ اسی نہج پر کام کررہی ہے اور طب صابر کے قوانین کو قرانی آیات اور احادیث رسول مقبول ﷺ کی روشنی میں پرکھا جائے۔ادارہ ہذا اس پر بیسیوں کتب لکھ انٹر نیٹ پر شائع کرچکا ہے۔راقم الحروف(حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)نے ان آیات مبارکہ کو یکجا کیا ہے جو حضرت مجدد الطب علیہ الرحمہ نے اپنی کتب میں لکھی ہیں ۔ان کی تشریح و توضٰح کرنے کی کوشش کی ہے۔امید ہے جلد یہ کاوش آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔