جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ
Hakeem qari m younas shahid
سخن ہائے گفتنی
انسانی ذہن عجیب انداز میں حصول مقاصد کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سہل و آسان راستے کا انتخا ب کرتا ہے ،ضرورت کیوقت کسی کے سامنے بھی دست سوال پھیلانے سے نہیں شرماتا، کسی بھی دروازے پر دستخط دے سکتاہے ۔
جب ’’جادو کی تاریخ ‘‘نامی کتاب پائے تکمیل کو پہنچی معاََ خیال آیا کہ جادو اوراس کے بارہ میں بہت سا مواد مرتب ہونے سے بچ گیا ہے، اگر اسے خاص ترتیب کے ساتھ مرتب کردیا جائے تو سابقہ کاوش کا تتمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس مجموعہ کا نام’’جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ ‘‘رکھا گیا ہے۔جادو کی ہمہ گیری،جادو کے بارہ میں پھیلے ہوئے واہی تباہی قصے و کہانیاں ایسی تھیں کہ جنہیں عمومی طور پر نظر انداز کرنا مشکل ہے۔اس وقت جادو کے بارہ میں جو خدشات موجود ہیں
انہیں خاص انداز میں پرکھا جائے ،ان پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے اور دستیاب مواد پر نظر ڈالی جائے تاکہ حقائق کھل کر سامنے آسکیں۔عملیاتی خاردار صحرا میں ربع صدی سے خاک چھان رہاہوں
ا س دوران بہت سے گھٹن مراحل سے گزرا ہوں، بہت سے راحت افزا لمحات بھی دیکھنے کو ملے ہیں ،اسی دوران تحقیق و تدقیق کی راہیں بھی کھلیں، ساتھ میں معاشی وسائل و معاشرتی رسوخ بھی ملا ، اس میدان میں چلنے والے بہت سے مسافروں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے اپنی بپتا سنائی ، مسیحائی کے طالب دکھائی دئے ۔
مختلف روپ بہروپ میں لوگوں کا سامنا کیا ،اس فن سے لوگوں کی بہت سی توقعات دیکھی گئیں،ایک تہی دست سے لیکر سربراہ وقت تک،مزدور سے لیکر مالک تک اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہر ایک نے رجوع کیا ،اس وادی کی مسافرت میں جہاں بہت سی دعائیں ملیں، وہیں پر رقابت و حسد کے بچھے ہوئے جال بھی ملے ، زندگی کا یہ وہ سفر ہے جب میں تنوعات کی اتنی کثرت ہے حیرت سے آنکھیں پھٹتی رہ جاتی ہیں
۔بخیل لوگوں کی دنیا میں فیاض لوگوں کی قدم بوسی بھی نصیب ہوئی ،جب جادو کے بارہ میں کچھ معلوم نہ تھا اس وقت سے ہی بہت سے دروازوں پر شوق نے پہنچادیا۔لیکن خالی کاسہ واپس ہونا پڑا، سالوں پر محیط تحقیق و تدقیق کے دوران مجھے ایسے لوگوں کے دروں پر پہنچا یا
جو میری طرح راہنمائی کے متلاشی تھے۔آج اور کل میں اتنا فرق تھا، جب میں جگہ خالی کرکے آگے بڑھا تو میری جگہ دوسروں نے لے لی،یہ سلسلہ کب سے ہے اور کب تک چلے گا کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن یہ سلسلہ تھنے والا نہیں ہے۔
کچھ لوگ سمندر کی مانند تھے، جواہر و خزائن لئے سب کے سامنے حاضر تھے، ان کے پاس کھٹا مٹھا سب کچھ تھا ،اپنی مرضی کے مطابق سیرابی ملتی تھی۔
ساتھ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو جبہ و قبہ میں مستور،احترامی خول میں ملفوف تھے،ایسے جوہڑثابت ہوئے جن کے اندر معمولی ساپانی (عملیاتی ہنر) امساکی زہر وجہ سے سڑاند مارہا تھا ،سیاہی چوس تھے جو دوسروں کی رطوبت جذت کرنے کی مہارت رکھتے تھے، خود کچھ نہ اگلتے تھے۔
کچھ ساون کی گھٹا تھے جہاں گئے ماحول کو سیراب کردیا ،کچھ عملیات سے زیا دہ یقین و توقعات کے دھنی تھے جن کی قوت ارادی کسی بھی عمل سے بڑھی ہوئی تھی،بہر حال اتنے زیادہ تنوعات شاید ہی کسی دوسرے میدان میں دیکھنے کو ملیں،عملیات وجادو کے بارہ میں جوکچھ پڑھا سنا،تجربہ میں آیا، معالجاتی زندگی میں جو تجربات ہوئے
انہیں کا نچوڑ آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہا ہے ،اچھا، برا جو کچھ ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے کریں گے ۔ممکن ہے اس کاوش سے لوگوں پر کچھ اسرار کھل جائیں کچھ غلط فہمیاں دور ہوجائیں،عملیاتی زندگی میں جو تلخ تجربات ہوئے یہ انہی کی بازگزشت ہے ،جادو کیا ہے؟کیوں ہوتا ہے؟کون کرتا ہے؟جادو سے کون لوگ متأثر ہوتے ہیں؟ عمومی طور پر ان سوالوں کا عاملین کے پاس کوئی خاص جواب نہیں ہوتا
کیونکہ وہ چند عملیات کو زندگی کا سرمایہ بنائے بیٹھے ہوتے ہیں،اس تحریر کے لئے کتنی دماغ سوزی کرنا پڑی ،کس قدر تحریر موادسے استفادہ کیا کتاب میں موجود حوالہ جات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، فیصلہ پڑھنے والوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں۔
قارئین سے ملتمس ہوں کہ یہ اوراق ایک فن کی جستجو اور ذہنی قلق کا نتیجہ ہیں،مذہبی یا عقائد کی کتاب نہیں، اس کا مطالعہ اسی زاویہ سے کیا جائے،یہ ایک فنی کتاب ہے، اس موضوع سے متعلقہ سوال کیا جاسکتا ہے، اسے مذہب و مسلک عقائد سے جوڑنا اس کی غرض و غائت سے ہٹ کرہے ۔ منصف قارئین سے وابسطہ چیز ہے ۔
عمومی طورپر تعصب معقول بات کو بھی بے وقار کردیتاہے۔موضوع جس قدر کہنہ و پیچیدہ ہے اس کا مطالعہ بھی اسی قدر الجھا دینے والا ہے ،جس قدر سلجھانے کی کوشش کریں گے الجھتا جائے گا۔جو بات جہاں سے اخذ کی اس کا حوالہ دیدیا، اپنے تجربات سے زیادہ کام لیا گیا۔اصلاح کی ہر آن و ہر لمحہ کمی ہر ذی شعور محسوس کرتا ہے ۔
راقم بھی اس سے بری نہیں ہے۔میرے عقائد وہی ہیں جو ’’المہند علی المفند ‘‘ مصنف مولانا خلیل احمد ؒمیں مذکور ہیں۔قران و حدیث پراتناہی اٹل یقین ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہئے۔وباللہ التوفیق