- Home
- Sawaneh Umri سوانح عمریاں
- نقوش کے خصوصی شم ...


نقوش کے خصوصی شمارے: اردو ادبی صحافت میں ایک سنگ میل
تعارف: رسالہ نقوش کا پس منظر اور اہمیت
رسالہ نقوش اردو ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جس کا اجراء مارچ 1948ء میں لاہور سے ہوا ۔ یہ پاکستان کی آزادی کے چند ماہ بعد کا وقت تھا، جب اردو ادب کو نئے افق درکار تھے اور نقوش نے اس ضرورت کو بخوبی پورا کیا۔ اس کے اولین مدیران اردو کے نامور شاعر، نقاد اور صحافی احمد ندیم قاسمی اور معروف افسانہ نگار ہاجرہ مسرور تھے ۔ نقوش کی پیشانی پر “زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان” یا “نمائندہ” کے الفاظ درج تھے ، جو اس کے ادبی و فکری رجحان اور زندگی سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے تھے۔
اجرا اور ابتدائی ادوار
نقوش کا ابتدائی دور، جو مارچ 1948ء سے اپریل 1949ء تک پھیلا ہوا ہے، احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کی مشترکہ ادارت میں گزرا ۔ اس عرصے میں نقوش کے ابتدائی دس شمارے منظر عام پر آئے ۔ یہ دور نقوش کی ترقی پسند ادبی تحریک سے گہری وابستگی کا مظہر تھا ۔ احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور، دونوں ترقی پسند ادبی تحریک کی نمایاں شخصیات تھیں اور انہوں نے نقوش میں ترقی پسند مصنفین کی تحریروں کو شامل کرکے اس فلسفے کی بھرپور وکالت کی ۔
اس دور کا ایک اہم واقعہ سعادت حسن منٹو کے متنازع افسانے “کھول دو” کی نقوش کے تیسرے شمارے میں اشاعت تھا ۔ اس افسانے کی اشاعت کے نتیجے میں حکومت نے رسالے پر چھ ماہ کی پابندی عائد کر دی ۔ حکومتی دباؤ اور قدغنوں کے باعث احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کو نومبر 1949ء میں ادارت چھوڑنی پڑی ۔ یہ واقعہ نو آزاد پاکستان کے سیاسی ماحول اور ادبی صحافت کی آزادی پر پڑنے والے دباؤ کی براہ راست عکاسی کرتا ہے۔ اس کے بعد، رسالے کی بقا اور اشاعت کو یقینی بنانے کے لیے اس کی فکری سمت میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی۔
دوسرا دور مئی 1950ء سے مارچ 1951ء تک سید وقار عظیم کی ادارت میں رہا ۔ اس مختصر عرصے میں وقار عظیم صاحب نے نقوش کی کایا پلٹ دی ۔ انہوں نے رسالے کو سیاسی مباحث سے نکال کر خالص ادبی اور جمالیاتی قدروں کی طرف موڑ دیا ۔ ان کی ادارت میں نیازی فتح پوری کا “اندلس میں آثار علمیہ”، نصر الدین ہاشمی کا “قدیم اردو کی رزمیہ مثنویاں”، ممتاز شیریں کا “اردو ناول” اور صوفی تبسم کا “اردو شاعری کی طرف پیش قدمی” جیسے اہم مضامین شائع ہوئے ۔ 1951ء میں ایک “ناولٹ ایڈیشن” بھی شائع ہوا جس میں اشفاق احمد کا “مہمان بہار”، شوکت تھانوی کا “سسرال” اور سعادت حسن منٹو کا “کٹاری” جیسے قابل ذکر کام شامل تھے ۔ اس دور نے نقوش کو ایک نئی ادبی شناخت دی اور اسے خالص ادبی جریدے کے طور پر مستحکم کیا۔
محمد طفیل کا عہدِ ادارت اور “محمد نقوش” کا خطاب
نقوش کی تاریخ کا سب سے طویل اور سنہرا دور اپریل 1951ء میں محمد طفیل کی ادارت اور ملکیت سنبھالنے سے شروع ہوا، جو ستمبر 1986ء تک جاری رہا ۔ محمد طفیل نے نقوش کی کامیابی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ۔ ان کی انتھک محنت اور غیر متزلزل عزم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ نقوش اردو کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اور سب سے زیادہ زیر بحث ادبی جریدہ بن گیا ۔ برصغیر کے تقریباً ہر معروف اردو ادیب اور شاعر کی یہ دلی خواہش ہوتی تھی کہ اس کی تحریر نقوش میں شائع ہو ۔ ڈاکٹر انور سدید کے بقول، “اگر کسی کو نقوش میں جگہ نہ ملتی تو اس کا ادیب ہونا مشکوک سمجھا جاتا تھا” ۔ یہ اس رسالے کی ادبی حلقوں میں غیر معمولی حیثیت کا بین ثبوت ہے۔

محمد طفیل کی نقوش سے گہری وابستگی اور اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں، بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انہیں “محمد نقوش” کا خطاب دیا ۔ یہ خطاب اس بات کا عکاس ہے کہ محمد طفیل کی شخصیت اور نقوش کا نام لازم و ملزوم ہو چکے تھے، اور دونوں کو ایک ہی سانس میں یاد کیا جاتا تھا ۔ حکومت پاکستان نے بھی انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا ۔ محمد طفیل نقوش کے لیے “طلوع” کے عنوان سے اداریے لکھتے تھے ، جو مختصر مگر فکر انگیز اور عمدہ اردو نثر کا نمونہ تھے۔
محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے میدان میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور ان کے خاکوں کے نو مجموعے شائع ہوئے، جن میں “جناب، صاحب، آپ، محترم، مکرم، معظم، محبی، مخدومی” شامل ہیں ۔ ان کی خودنوشت “ناچیز” ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ۔ ان کی خاکہ نگاری کی خصوصیت اس کی سلاست اور ہلکا پھلکا مزاح ہے، جو اسے انتہائی دلکش بناتی ہے ۔ محمد طفیل کا یہ سفر اردو ادبی صحافت میں مدیر کی شخصیت اور رسالے کی شناخت کے باہمی تعلق کی ایک بہترین مثال ہے۔ یہ بات ادبی حلقوں میں عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ ہر جریدے کے پیچھے اس کی مدیر کی شخصیت جھلکتی ہے ۔ محمد طفیل نے اپنی ذاتی لگن اور بصیرت سے نقوش کو ایک ایسے ادبی ادارے میں تبدیل کر دیا جو محض ایک رسالہ نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک طاقتور اور پہچانا جانے والا برانڈ بن گیا۔
اردو ادب میں نقوش کا مقام
نقوش نے اردو ادب کی تاریخ پر اپنے گہرے “نقوش” چھوڑے ہیں ۔ اسے آزادی کے بعد شائع ہونے والے چند ایسے ادبی رسائل میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے اردو ادبی صحافت کی تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ۔ نقوش کی ایک اہم خوبی اس کی شمولیت اور جامعیت تھی؛ یہ کسی ایک ادبی مکتبہ فکر یا نظریے تک محدود نہیں تھا ۔ اس نے تمام ادبی پس منظر کے لکھنے والوں اور شاعروں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے جگہ دی، چاہے وہ کلاسیکی روایت کے امین ہوں یا جدید رجحانات کے حامل ۔ اس طرح، نقوش نے کلاسیکی اور جدید ادبی روایتوں کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار ادا کیا ۔
ادبی معیار کے تعین اور جامعیت کے فروغ میں نقوش کا کردار بے مثال ہے۔ ایک ایسے ادبی ماحول میں جہاں نظریاتی تقسیم اور اسلوبیاتی اختلافات عام تھے، نقوش کی شمولیت کی پالیسی اور متنوع ادبی روایات کو یکجا کرنے کا عزم انقلابی ثابت ہوا۔ اس نقطہ نظر نے نہ صرف اسے زبردست وقار بخشا اور ادبی شناخت کے لیے ایک معیار بنا دیا، بلکہ جدید اردو نثر کی بنیادیں قائم کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ اس نے ادبی صحافت کے لیے ایک نیا معیار قائم کیا جس میں تنوع، گہرائی اور معیار کو یکساں اہمیت دی گئی۔ نقوش نے معیاری مواد کی اشاعت اور خاص نمبروں کی بدولت آج بھی اپنا نام زندہ رکھا ہے ۔
محمد طفیل کی وفات کے بعد، دسمبر 1986ء میں ان کے بیٹے جاوید طفیل نے نقوش کی ادارت سنبھالی ، اور اس طرح نقوش کا چوتھا دور شروع ہوا، جو اس کے ادبی سفر کا تسلسل ہے۔
نقوش کے خصوصی شمارے: ایک ادبی روایت
نقوش کی شہرت اور اردو ادب میں اس کے غیر معمولی مقام کی سب سے بڑی وجہ اس کے خصوصی شمارے ہیں، جنہیں عام طور پر “نقوش نمبر” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ خاص نمبر محض رسالے کے عام شمارے نہیں تھے بلکہ اپنی وسعت اور گہرائی میں آزاد کتابوں کی حیثیت رکھتے تھے ۔ محمد طفیل کے عہدِ ادارت میں ان خصوصی شماروں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ، اور ان کی تعداد 100 سے بھی تجاوز کر گئی ۔
خاص نمبروں کی تعریف اور اہمیت
نقوش کے خاص نمبر ادبی صحافت میں ایک نئی جہت کا آغاز تھے، جو محض خبروں اور تبصروں سے آگے بڑھ کر کسی مخصوص موضوع، صنف، یا شخصیت پر گہرائی سے تحقیق اور مواد کی فراہمی پر مبنی تھے۔ ان شماروں نے اردو ادبی صحافت کو ایک نئی سطح پر پہنچایا۔ نقوش نے اپنے خاص نمبروں میں معیاری تحقیق، تاریخی چھان بین، دستاویزی شواہد اور انٹرویوز کو شامل کرکے ادبی صحافت کے انداز میں ایک انقلابی تبدیلی لائی ۔ یہ نقطہ نظر اردو ادبی صحافت میں ایک اہم ارتقاء کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان “نمبروں” کو جامع انتھالوجیز یا مونوگراف کے طور پر شائع کرکے، نقوش نے روایتی رسالے کی شکل کو عبور کیا۔ اس جدت نے نہ صرف مخصوص موضوعات کی گہرائی سے کھوج کرکے ادبی گفتگو کو تقویت دی بلکہ اردو ادب میں تعلیمی تحقیق کے لیے بھی بنیادی کام کیا۔ اس پیش رفت نے ادبی صحافت کو محض خبروں اور تبصروں سے ہٹ کر سنجیدہ علمی تحقیق کے پلیٹ فارم میں بدل دیا، جس نے بعد کی مطبوعات کو زیادہ سخت، تحقیقی انداز اپنانے پر اثر ڈالا۔ اس ترقی نے اردو ادبی مطالعات کے تعلیمی مقام کو بلند کیا۔
اہم خصوصی شماروں کا تفصیلی جائزہ
نقوش نے مختلف موضوعات، اصناف اور شخصیات پر بے شمار خصوصی شمارے شائع کیے، جن میں سے چند اہم کا تفصیلی جائزہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:
- افسانہ نمبر (Short Story Number): نقوش نے افسانہ نمبر کئی بار شائع کیے، جن میں نومبر 1960ء کا شمارہ نمبر 85-86 (711 صفحات) اور نومبر 1968ء کا شمارہ نمبر 110 (699 صفحات) شامل ہیں ۔ ان شماروں میں 3 ناولٹ، 2 رپورتاژ، 1 ڈراما، 3 طویل افسانے اور 32 مختصر افسانے شامل تھے، علاوہ ازیں کچھ مضامین، خاکے اور ایک ناول بھی شامل کیا گیا ۔ نقوش کے اولین مدیران احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور خود بھی معروف افسانہ نگار تھے ۔ ان شماروں میں کرشن چندر، اشفاق احمد، شوکت تھانوی اور سعادت حسن منٹو جیسے نامور افسانہ نگاروں کے کام شامل تھے ۔ یہ شمارے اردو افسانے کی مختلف جہتوں اور اس کے ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ایک جامع ماخذ ہیں۔
- خطوط نمبر (Letters Number): نقوش کے خطوط نمبر اردو مکاتیبی ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نومبر 1957ء میں شمارہ نمبر 65-66 دو جلدوں میں (1070 صفحات) شائع ہوا، جبکہ ستمبر 1967ء میں شمارہ نمبر 108 تین جلدوں میں (645 صفحات) اور اپریل-مئی 1968ء میں شمارہ نمبر 109 (620 صفحات) شائع ہوئے ۔ ان میں کل 2253 خطوط شامل تھے، جن میں سے تقریباً تمام غیر مطبوعہ تھے ۔ نقوش نے برصغیر کے نامور علماء اور ادیبوں کے خطوط کے پانچ جلدیں شائع کیں ۔ ان خطوط کے ذریعے سیاسی اور سماجی تاریخ بھی مرتب کی جا سکتی ہے ۔ میراجی کے خطوط ان کی دوستوں اور عزیزوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہنے کے جذبے کو ظاہر کرتے ہیں ۔ مشہور شاعر شاد عارفی نے اپنے خطوط میں اپنی ابتدائی تعلیم، ملازمت اور شادی کے بارے میں معلومات فراہم کیں ۔ مکاتیبی ادب کی تاریخ نقوش کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوگی ۔
- شخصیات نمبر (Personalities Number): جنوری 1955ء میں شائع ہونے والا شمارہ نمبر 47-48 (2 جلدیں، 717 صفحات) نقوش کے اہم ترین خاص نمبروں میں سے ایک ہے ۔ اس کی پہلی جلد میں 86 شخصیات پر مضامین شامل تھے ۔ ان میں سرسید احمد خاں، خان بہادر مولوی بشیر الدین، نواب محسن الملک، امیر مینائی، سر تیج بہادر سپرو، عبدالرزاق کانپوری، لالہ سری رام، سید علی بلگرامی اور منشی سجاد جیسے نامور شخصیات شامل تھیں ۔ 1956ء کے شمارے میں جوش ملیح آبادی پر وحید احمد کا مضمون بھی شامل تھا ۔ یہ شمارے اردو ادب، سیاست اور سماج کی اہم شخصیات کی زندگی اور خدمات پر جامع معلومات فراہم کرتے ہیں۔
- منٹو نمبر (Manto Number): نقوش کا منٹو نمبر (شمارہ نمبر 49-50، 1 جلد، 390 صفحات) سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن پر ایک جامع دستاویز ہے ۔ اس میں منٹو کی 20 غیر مطبوعہ کہانیاں، 10 دیگر تخلیقات اور ان کے فن و شخصیت پر 15 مضامین شامل تھے ۔ یہ خاص نمبر اس حقیقت کے پیش نظر اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ نقوش کے ابتدائی شماروں میں منٹو کا متنازع افسانہ “کھول دو” شائع ہونے کے بعد رسالے پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔ اس نمبر کی اشاعت نے منٹو کی ادبی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔
- اقبال نمبر (Iqbal Number): محمد طفیل نے نومبر 1977ء میں اقبال نمبر شائع کیا ۔ اس شمارے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں وہ تمام مضامین شامل تھے جو 1932ء میں علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہونے والے پہلے اقبال نمبر “نیرنگ خیال” میں شامل تھے ۔ یہ نقوش کے قابل ذکر خصوصی شماروں میں سے ایک ہے ۔ یہ شمارہ علامہ اقبال کے فکری اور شعری پہلوؤں پر گہرائی سے روشنی ڈالتا ہے۔
- رسول نمبر (Prophet Muhammad (PBUH) Number): نقوش کا رسول نمبر اردو ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک بے مثال کارنامہ ہے۔ یہ 13 جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے صفحات کی تعداد تقریباً 5000 ہے ۔ اس میں سیرت کے موضوع پر لکھے گئے بہترین مقالات کو جمع کیا گیا ہے اور ایسے موضوعات پر نیا مواد بھی شامل کیا گیا ہے جن پر پہلے کام کا مواد دستیاب نہیں تھا ۔ یہ شمارہ سیرت نگاری کے اصولوں اور سیرت کے مکمل مواد کے حصول کے ذرائع پر تقریباً آٹھ سو سولہ صفحات پیش کرتا ہے ۔ یہ سیرت کے موضوع پر ایک جامع اور تفصیلی کام ہے، جو اسلامی ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔
- لاہور نمبر (Lahore Number): فروری 1962ء میں شائع ہونے والا نقوش کا لاہور نمبر (1 جلد، 1219 صفحات) لاہور کی تاریخ، ثقافت اور ادبی زندگی پر ایک جامع دستاویز ہے ۔ اس کا 1961ء کا ورژن انٹرنیٹ آرکائیو پر بھی دستیاب ہے ۔ یہ شمارہ لاہور شہر کی ادبی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
- طنز و مزاح نمبر (Satire & Humor Number): جنوری-فروری 1969ء میں شائع ہونے والا شمارہ نمبر 71-72 (1 جلد، 945 صفحات) طنز و مزاح کی صنف پر ایک اہم کام ہے ۔ اس میں وزیر آغا، کلیم الدین احمد، شوکت سبزواری اور قاضی ظہور الحسن جیسے ادیبوں کے مزاح اور طنز پر مضامین شامل تھے ۔ یہ شمارہ اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت اور اس کے ارتقاء کو سمجھنے میں معاون ہے۔
دیگر اہم خاص نمبر
نقوش نے ان کے علاوہ بھی کئی دیگر اہم خاص نمبر شائع کیے، جن میں غزل نمبر ، آپ بیتی نمبر (2 جلدیں) ، میر انیس نمبر ، پطرس بخاری نمبر ، شوکت تھانوی نمبر ، ادب عالیہ نمبر ، ادبی معرکے نمبر ، عصری ادب نمبر ، محمد طفیل نمبر ، گولڈن جوبلی نمبر ، قرآن نمبر ، ناولٹ نمبر ، پنج سالہ نمبر ، عالمگیر امن نمبر ، جشن آزادی نمبر ، میر تقی میر نمبر اور غالب نمبر شامل ہیں۔ ان تمام شماروں نے اردو ادب کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور قارئین و محققین کے لیے گراں قدر مواد فراہم کیا۔
نقوش کے خاص نمبروں کے اثرات اور میراث
اردو ادب پر گہرے اثرات
نقوش کے خصوصی شماروں نے اردو ادب پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان شماروں نے اردو ادبی صحافت کو ایک نئی سطح پر بلند کیا ۔ نقوش نے خصوصی شمارے شائع کرنے کی ایک ایسی روایت قائم کی ، جسے بعد میں آنے والے کئی ادبی جرائد نے اپنایا۔ اس نے کلاسیکی اور جدید ادبی روایتوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا ، جس سے اردو ادب میں فکری اور اسلوبیاتی تنوع کو فروغ ملا۔ نقوش نے پرانے اور کہنہ مشق ادیبوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کی ، جس سے ادبی منظر نامے میں نئی آوازیں شامل ہوئیں۔ اس نے مختلف ادبی مکاتب فکر کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کیا ، جس سے ادبی مباحث کو وسعت ملی۔
تحقیقی اور دستاویزی اہمیت
نقوش کے خاص نمبروں کی تحقیقی اور دستاویزی اہمیت غیر معمولی ہے۔ نقوش نے خطوط، نثر اور شاعری سمیت متنوع مواد شائع کیا ۔ اس نے برصغیر کے نامور علماء کے خطوط کے پانچ جلدیں شائع کیں ۔ یہ خطوط سیاسی اور سماجی تاریخ کو مرتب کرنے کے لیے ایک قیمتی ماخذ ہیں ، اور مکاتیبی ادب کی تاریخ نقوش کے ذکر کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے ۔
نقوش ریسرچ سینٹر (NRC) اور میوزیم اس رسالے کی دستاویزی اہمیت کا ایک ٹھوس ثبوت ہے ۔ یہ مرکز اردو ادبی خطوط اور مضامین کے اصلی مسودات کا ایک منفرد ذخیرہ رکھتا ہے، جو شواہد پر مبنی تحقیق کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس مجموعے میں 1933 ادبی شخصیات اور پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 1100 سے زائد مصنفین کے کام شامل ہیں ۔ نقوش کے خصوصی شماروں کی جامع، تقریباً انسائیکلوپیڈک نوعیت نے ادبی محققین کے لیے ایک انمول وسیلہ فراہم کیا، جس نے اردو ادبی مطالعات میں تعلیمی سختی کا ایک نیا معیار قائم کیا۔ یہ جامع نقطہ نظر، این آر سی میں اصلی دستاویزات کے تحفظ کے ساتھ مل کر، شواہد پر مبنی تحقیق اور تنقیدی چھان بین کے کلچر کو فروغ دیا۔ اس نے اردو ادبی تحقیق کو محض تعریف سے ہٹ کر ایک زیادہ تجزیاتی اور تاریخی طریقہ کار کی طرف منتقل کیا، جس سے زبان میں ادبی تحقیق اور تنقید کی سمت پر گہرا اثر پڑا۔
دستیابی اور تحفظ
نقوش کے خصوصی شماروں کی دستیابی اور ان کا تحفظ اردو ادب کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ریکھا فاؤنڈیشن، جو اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیے وقف ہے، اپنی ویب سائٹ پر نقوش کے متعدد شمارے پیش کرتی ہے ۔ انٹرنیٹ آرکائیو پر بھی نقوش کا “لاہور نمبر” (1961ء کا ورژن) دستیاب ہے ۔ لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (GCU) کی لائبریری میں نقوش کے 1948ء سے 2005ء تک کے تمام شمارے حوالہ کے لیے موجود ہیں، اور اس کے علاوہ اصل مسودات اور خطوط کا ایک وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے ۔ سکربڈ (Scribd) اور خاجستان (Khajistan) جیسے دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی نقوش کے کچھ شمارے دستیاب ہیں ۔ یہ ڈیجیٹلائزیشن اور آرکائیو کی کوششیں مستقبل کی نسلوں کے محققین اور ادبی شائقین کے لیے اس قیمتی ادبی ورثے تک رسائی کو یقینی بناتی ہیں۔
نتیجہ
نقوش، جس کا آغاز مارچ 1948ء میں ہوا، اردو ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے ابتدائی سیاسی دباؤ اور ادارتی تبدیلیوں کے باوجود، محمد طفیل کی بے مثال لگن اور بصیرت نے اسے ایک ایسے ادبی ادارے میں تبدیل کر دیا جس نے اردو ادب پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ محمد طفیل کی شخصیت اور نقوش کا نام ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے، جو ایک مدیر کی اپنے جریدے سے گہری وابستگی کی بہترین مثال ہے۔
نقوش کے خصوصی شمارے، جنہیں “نقوش نمبر” کے نام سے جانا جاتا ہے، اس رسالے کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہیں۔ یہ شمارے محض رسالے کے عام ایڈیشن نہیں تھے بلکہ اپنی وسعت، گہرائی اور تحقیقی مواد کے لحاظ سے آزاد کتابوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو ادبی صحافت میں ایک نئی روایت قائم کی، جس میں کسی ایک موضوع، صنف یا شخصیت پر جامع اور تفصیلی مواد پیش کیا جاتا تھا۔ ان شماروں نے اردو ادب میں ادبی تحقیق اور تنقید کے لیے نئی راہیں کھولیں، اور انہیں شواہد پر مبنی علمی کام کے لیے ایک بنیادی ماخذ بنا دیا۔
نقوش کی جامعیت، جو کسی ایک ادبی مکتبہ فکر تک محدود نہیں تھی، اور اس کا کلاسیکی و جدید ادبی روایتوں کے درمیان پل کا کردار، اسے اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ اس نے نئے اور پرانے دونوں طرح کے ادیبوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کیا، جس سے اردو ادب میں فکری تنوع اور معیار کو فروغ ملا۔ آج بھی، نقوش کے خاص نمبر اردو ادب کے طلباء، محققین اور شائقین کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں، اور ان کا تحفظ اور دستیابی اردو کے ادبی ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ نقوش کا ادبی سفر اور اس کے خاص نمبروں کا ورثہ اردو ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے، جو آج بھی اپنی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔